پانی… اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں زندگی ہے وہاں پانی ہے اور جہاں پانی نہیں وہاں موت ہے۔ ماضی بعید سے ہی انسان بودوباش اور سکونت وقیام کے لئے ان علاقوں کا انتخاب کرتا رہا ہے جہاں پانی کے ذخائر، دریا اور ابلتے چشمے تھے۔ جیسے ہی پانی کے ذخائر خشک ہوتے اور دریائوں کی روانیاں رکتیں تو لوگ ان علاقوں سے نقل مکانی کر جاتے۔ ہڑپہ، موہنجوداڑواور دراڑو جیسی عظیم الشان تہذیبیں پانی کا رخ تبدیل ہونے سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے بیک وقت دونوں طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ اس صورت حال کا ذمہ دار بھارت ہے جس نے مقبوضہ جموں کشمیر سے نکلنے والے دریائوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان دریائوں پر بنائے جانے والے ڈیموں کے پانیوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ریاست جموں کشمیر اور پنجاب… آبی وسائل کا اہم منبع تھے۔ دریائے کابل کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی تمام بڑے دریا ریاست جموں کشمیر سے نکلتے ہیں اسی وجہ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جموں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ 27اکتوبر 1947ء کی شب بھارتی اور انگریز فوج کا شہ رگ پاکستان پر مشترکہ حملہ صرف عسکری ہی نہیں آبی حملہ بھی تھا جس کا مقصد پاکستان کے آبی وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔پاکستان کے پنجاب اور سندھ کا شمار دنیا کے بہترین خوراک پیدا کرنے والے علاقوں میں ہوتا ہے لیکن بھارت کی طرف سے پانی کی بندش اور آبپاشی نہ ہونے کی وجہ سے 20ملین ایکڑ کا یہ عظیم خطہ ایک ہفتے میں خشک ہو جائے گا اور لاکھوں لوگ فاقوں کا شکار ہو جائیں گے۔ دنیا کی کوئی بھی فوج بموں اور گولوں سے کسی زمین کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتی جس طرح ہندوستان پاکستان کے پانی کے منصوبوں کو بند کر کے تباہ کر سکتا ہے۔‘‘ڈیوڈ للی اینتھال کا 63سال قبل ظاہر کیا جانے والا یہ خدشہ آج حقیقت بن چکا ہے۔ پاکستان میں سیلابوں سے ہونے والی تباہی اسی بھارتی آبی دہشت گردی کا تسلسل ہے۔ ستمبر کے اوائل میں ہونے والی بارشیں صرف چار دن تک محدود رہیں لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ چار دن ہونے والی بارشوں کی تباہی لامحدود ہے اور ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت نے دریائے چناب میں 12لاکھ کیوسک پانی چھوڑ دیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کے 36میں سے 21اضلاع کے 17لاکھ سے زائد لوگ بری طرح متاثر ہیں۔ پانی درجنوں شہروں میں داخل ہو چکا، سینکڑوں دیہات بہہ گئے، ہزاروں گھر ڈوب گئے، صفحہ ہستی سے مٹ گئے، بستیاں اجڑ گئیں، سڑکیں بہہ گئیں، پل ٹوٹ گئے، کسانوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی، بیٹیوں کے جہیز بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی دھان، گنا، کپاس اور سبزیات کی فصلیں تباہ ہوگئیںاور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی مر گئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں موجود فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں سے تباہی کے واقعات و حالات سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہمارے یہ نوجوان جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دن رات متاثرین کی خدمت ومدد میں مصروف ہیں۔ لیکن … تباہی تصور سے بھی زیادہ ہے۔ دریائے چناب سے اٹھنے والا ایک ایک ریلہ سینکڑوںدیہات کو بہا کر لے گیا ہے۔ جھنگ کے 413، مظفرگڑھ کے 400، جہلم کے 349، سرگودھا کے 300، ظفروال نارووال کے 262، سیالکوٹ کے 190، شیخوپورہ کے 180، حافظ آباد پنڈی بھٹیاں کے 155،ملتان و گردو نواح کے 150، چنیوٹ کے 148، منڈی بہائوالدین کے 103 دیہات زیرآب آچکے ہیں۔ ان میں بعض دیہات مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکے اور بعض جگہ ایسی تباہی پھری ہے کہ 70سال کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہی حال وزیرآباد، نارنگ منڈی اور دیگر علاقوں کا ہے۔دریائے چناب میں آنے والے ریلوں کی طغیانی اور سرکشی کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ مختلف مقامات پر دریا کے دونوں اطراف میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کئے گئے درجنوں حفاظتی بند اور پشتے توڑنے پڑے یا از خود ٹوٹ گئے۔ ضلع گوجرانوالہ اور ضلع گجرات کو بچانے کیلئے نئے بیراج کیلئے بنایا گیا بند توڑ دیا گیا۔ ہیڈتریموں اور جھنگ کو بچانے کیلئے اٹھارہ ہزاری بند کو دو مقامات سے توڑنا پڑا۔ بند توڑے جانے سے ہیڈ تریموں اور جھنگ تو بچ گئے لیکن چناب کا پانی تحصیل اٹھارہ ہزاری اور تحصیل احمد پور سیال میں داخل ہو گیا جس سے دو لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، دونوں تحصیلوں میں 230دیہات ڈوب گئے اور 7لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ وسطی پنجاب کو تاراج کرنے کے بعد جب دریائے چناب کا پانی جنوبی پنجاب کی طرف بڑھا تووہاں بھی تباہی پھیلا دی۔ ملتان اور مظفرگڑھ کو بچانے کیلئے محمدوالا اور شیر شاہ کے بندوں میں 100، 100فٹ کے 4شگاف ڈالنے پڑے مگر پانی کی شدت اور طغیانی اتنی زیادہ تھی کہ یہ شگاف از خود 500فٹ چوڑے ہو گئے۔ پانی نے شیرشاہ سمیت 120بستیوں میں تباہی مچا دی۔ اس کے علاوہ کوٹ مومن، موچھ، پٹھان کوٹ، کلری شیخن، حاجی عثمان، خوشاب اور بھکر میں حفاظتی پشتے اور بند ٹوٹ گئے، مظفرگڑھ کو بچانے کیلئے دوآبہ کا بند توڑنا پڑا۔ نالہ ڈیک پر 6ماہ قبل سات کروڑ کی لاگت سے بنایا گیا حفاظتی بند بھی ٹوٹ گیا۔ اب دریائے چناب کا پانی وسطی اور جنوبی پنجاب کو تاراج کرنے کے بعد سندھ کی بستیوں اور شہروں سے ٹکرا رہا ہے۔ شہروں، دیہی علاقوں، زرعی زمینوں، حفاظتی بندوں اور پشتوں کی تباہی اتنا بڑا نقصان ہے کہ جس کا ازالہ کرتے کرتے کئی سال لگ جائینگے۔ ان نقصانات کا ابھی ازالہ نہیں ہو پائے گا کہ سال دو سال بعد بھارت دوبارہ پاکستانی دریائوں میں پانی چھوڑ کر تباہی و بربادی کی نئی داستانیں رقم کر دے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ بھارت نے مصنوعی سیلاب کے ذریعے پاکستان پرباقاعدہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا…؟ ہمارے ملک کی 70%آبادی دیہی علاقوں میں رہ رہی ہے۔ ہر سال سیلاب کا مطلب ہے 70%آبادی کی تباہی… موت… اور ہر سال کھربوں روپے کا نقصان۔ دکھ کی بات ہے کہ ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے آموں، شالوں کے تبادلوں میں مصروف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران اس خاموشی کو توڑیں، جرأت کا مظاہرہ کریں اور اس معاملے کو سلامتی کونسل میں لے کر جائیں۔
بھارت کی آبی جارحیت کب تک…؟
Sep 26, 2014