ان دنوں دھرنوں کا موسم ابھی جاری ہے، عمران خان اور قادری وغیرہ بار بار سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو اپنی بے جا اور من گھڑت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ گذشتہ روز عمران خان نے پہلی مرتبہ دھرنے کے شرکاء میں آ کر یعنی سٹیج سے نیچے اتر کر ان کے بیچ خطاب کیا تو اس موقع پر افتخار محمد چوہدری پر برس پڑے۔ عمران خان نے افتخار محمد چوہدری کو جمہوریت کا میرجعفر تک قرار دے دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سارے ایسے واقعات گزر چکے ہیں جن میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو بھی بھرپور تنقید اور جانبدار ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی آج بھی اپنے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کو عدالتی مرڈر قرار دیتی ہے۔ اسکے علاوہ بھی بہت سارے ایسے کیسز تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں جن پر تاریخ دان نے اپنے قلم سے عدلیہ کو بھی ہدف تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ افتخار محمد چوہدری کو موجودہ دور میں آزاد عدلیہ کی نئی جرات مندانہ سمت کے تعین کرنے کا بانی اور محرک قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس وطن عزیز میں ایسے ایسے دبنگ اور جرات مندانہ فیصلے کئے کہ عدلیہ کا وقار بہت زیادہ بلند ہوا، لوگوں کا اعتماد عدالتوں پر بحال ہونے لگا۔ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک وزیراعظم کو عدالتی احکامات تسلیم نہ کرنے پر سزا کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلزپارٹی کے دوراقتدار کے دوران ہی ان کا دوسرا وزیراعظم رینٹل پاور کرپشن کیس میں عدلیہ کے کردار سے خائف رہا۔ آج بہت سارے لوگ جن میں بطور خاص عمران خان اور تانگہ پارٹی کے کوچوان شیخ رشید احمد شامل ہیں ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ افتخار محمد چوہدری کی ڈوریاں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ہلائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ جس وقت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان کی کرسی پر براجمان تھے اس وقت تک ایک لفظ بولنے کی جرات نہیں کرتے تھے اور ان کی مداح سرائی کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج وقت گزر جانے کے بعد اختیار اور اقتدار نہ ہونے کے باعث ان پر شاید کسی ایسی طاقت یا غیرملکی ایجنڈے کے تحت انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ یہ لوگ شاید اس بات کو بھول رہے ہیں کہ جب گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد میاں محمد نوازشریف وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھال چکے تھے تو اس وقت افتخار محمد چوہدری کی طرف سے مسلم لیگ(ن) کے ایک رکن قومی اسمبلی کو دوہری شہریت رکھنے پر جب نااہلی کا سامنا کرنا پڑا تو ایک موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے بھی غیرمحسوس انداز میں بالواسطہ طور پر یہ تقاریر شروع کر دی تھیں کہ عدلیہ کا دائرہ کار کیا ہے، کیا ہونا چاہیے اور دوہری شہریت کے معاملے پر قانون کیا کہتا ہے۔ یہ باتیں ایسے لوگوں کو یاد ہوں گی تو وہ انہیں یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ دراصل ہمارا ملی طور پر سب سے بڑا معاشرتی المیہ یہ بنتا چلا جا رہا ہے کہ ہم ہر فرد اور شخصیت کی قابلیت اور قربانیوں کو بھی نظرانداز کر جاتے ہیں اور صرف اتنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کی کردار کشی کیلئے فرضی سہارے اور من گھڑت کہانیاں تک گھڑنے کی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ عمران خان کا کیا ہے، وہ روز اپنے ہی موقف سے ایک نیا موقف پیش کر کے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کو جس طرح بھی سہی چاہے جاوید ہاشمی کے مطابق ایجنسیوں اور خفیہ ہاتھوں کی بدولت سیاسی پذیرائی ملی، انہیں بلاشبہ پذیرائی ملی مگر وہ سیاست دان نہیں بن سکے اور نہ ہی بن سکتے ہیں کیونکہ وہ جذبات کی آڑ اور سہارا لے کر جتنی مرضی بھڑکیں لگا لیں جب تک دل میں درد موجود نہ ہو کبھی بھی حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔یہاں ایک بات واضح کرتے چلیں گے موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی بہت زیادہ متاثر کن نہیں ہے اور حکومت بھی میڈیا ٹرائل اور پراپیگنڈہ کے ذریعے ہی اپنی کارکردگی کا بل بوتا چڑھانے کی کوششوں میں مگن رہتی تھی اور آج یہی ہتھکنڈے حکومت کیخلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ عمران خان کو شاید یاد ہو یا نہ ہو مگر ہمیں ابھی کچھ یاد ہے کہ جب تک افتخارمحمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان رہے عمران خان بھی لاپتہ افراد کیس اور مسئلے پر بولا کرتے تھے اب رجحانات اور طرزعمل تبدیل ہونے کے بعد عمران خان کو ایک لاپتہ فرد بھی یاد نہیں آتا۔ کیا عوامی سیاست اور حقیقی تبدیلی اسی کا نام ہے۔ جنرل اسلم بیگ نے تو یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ عمران اور قادری کے پیچھے فوج نہیں ہے ان کے پیچھے غیرملکی ایجنڈا اور ہاتھ ہیں تو پھر عمران خان اور قادری اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اصل حقیقت کا اپنے بارے میں بھی اظہار کرنے کی جرات کریں۔ افتخار محمد چوہدری نے آئین اور قانون کے لئے جو کردار ادا کیا اور ان کے جو تاریخی فیصلے رقم ہو چکے ہیں ان جیسا کردار اور جرات تاحال عمران اور قادری دونوں میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ شیخ رشید اور چوہدری برادران وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں!۔ لہٰذا عمران خان ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کی تاریخ میں سنہری اور مثالی جرات مندانہ کردار ادا کرنے والے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بارے میں ایسے ویسے گرے ہوئے ریمارکس دینے سے پہلے اپنے کردار اور ظاہر و باطن میں فرق واضح کر لیں، کم از کم اپنی حد تک اپنے آپ سے تنہائی میں ہی سچ بولنا شروع کر دیں، وہ بنی گالا اپنی رہائش گاہ تو جاتے ہی رہتے ہیں اور دھرنے سے بھی غائب رہتے ہیں، وہاں ہی فرصت کے لمحات میں تنہائی کے لمحوں سے کچھ سیکھ لیں۔ اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتیں تو انہیں جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں وہ کیسے افتخار محمد چوہدری کو جمہوریت کا میرجعفر قرار دے سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے میں افتخار محمد چوہدری کا بہت زیادہ کردار تھا، وہ ایسے کہ افتخار محمد چوہدری کی وجہ سے آئین اور قانون کا پرچم سربلند تھا اور کسی بھی آئین کو پامال کرنے کی جرات نہیں تھی کہ عدلیہ نظریہ جمہوریت کو دفن کرنے کا پکا عہد کر چکی تھی۔
افتخار محمد چوہدری کا کردار اور الزامات کی بوچھاڑ
Sep 26, 2014