لاہور میں اکثر شادیوں کی تقریبات میں شرکت نہیں کرتا۔ میں ایک آدمی کو جانتا ہوں کہ وہ ہر شادی کی تقریب میں موجود ہوتا ہے۔ نجانے اسے دعوت کون دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ خود ہی خود کو خود بخود دعوت دے دیتا ہے۔ ہم جب گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے اور پیسے آدھے مہینے کے بعد ہی ختم ہو جاتے تھے اور کچھ دن تو بھوکے پیاسے رہنا پڑتا تھا۔ پیاسا اس لئے کہ بھوک زوروں کی لگی ہو تو پانی بھی نہیں پیا جاتا۔ پھر ہم سارے ”پھانک“ دوستوں نے مل کر سوچا کہ شہر میں شادی کی تقریبات کی خبر رکھی جائے اور اپنے پاس موجود سب سے اچھے کپڑے پہن کر پورے اعتماد سے شرکت کی جائے۔ ہم نے بہت شادیوں میں شرکت کی اور ہم سے کسی نے نہ پوچھا کہ تم کون ہو۔ یہ بھی اعتماد ہمیں حاصل تھا کہ لڑکے والے سمجھتے کہ ہم لڑکی والوں کی طرف سے ہوں گے جبکہ ہم خود بھی تب لڑکے تھے اور ہمیں یہ بھی پتہ نہ ہوتا تھا کہ لڑکی والے کون ہیں اور لڑکے والے کہاں ہیں؟
ہمارا ایک دوست بہت چھوٹے قد کا تھا مگر وہ ہر شادی میں بڑا بڑا بن کر پھرتا تھا۔ اسے ہم نے پوچھا کہ تم پکڑے گئے تو کیا کرو گے۔ اس نے ایک لطیفہ سنایا اور خود بہت ہنسا۔ ہمیں بھی مجبوراً ہنسنا پڑا۔ شیر کے سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی میں ایک چوہا بھی دم لہراتے ہوئے اکڑا ہوا پھر رہا تھا۔ کسی نے پوچھ لیا کہ تم کہاں؟ اس نے اپنی دم کو مزید لہراتے ہوئے کہا کہ شادی سے پہلے ہم بھی شیر ہوتے تھے۔ بلکہ شیر صاحب ہوتے تھے۔ کسی نہ کسی سے پوچھا کہ تم شادی سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اس نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا کہ جو ہماری مرضی ہوتی تھی ہم بے روک ٹوک کرتے تھے۔ تب ہم بھی غیرشادی شدہ تھے۔ اور بغیر روک ٹوک شادیوں میں شریک ہوتے تھے۔
لاہور میں گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو یعنی راوین بھائی ریٹائرڈ آئی جی سندھ رانا مقبول کے بچے کے ولیمے میں بھی نہ جا سکے۔ ہم نے اپنا کام تو زندگی میں کر لیا۔ اپنا کام لکھنا پڑھنا تھا۔ اب تک ہزاروں صفحات لکھے ہوں گے اور سینکڑوں کتابیں پڑھی ہوں گی۔ ہم خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں؟ بقول استاد محترم و مرحوم پروفیسر سجاد باقر رضوی پڑھے لکھے لوگ پڑھے کم اور لکھے زیادہ ہوتے ہیں۔ اپنی کاہلی کے باوجود جو آدمی جو کرنا چاہے وہ کر لیتا ہے۔ میں صبح سویرے اٹھنے والا آدمی ہوں مگر سویرے کہیں جانے کے لئے تیار ہونا میرے لئے ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ میں کبھی کبھی دوستوں سے کہتا ہوں کہ لوگ کاہل ہوتے ہیں میں بحرالکاہل ہوں۔
پیر حاجی اعجاز سے ملاقات نظریہ پاکستان کے دفتر میں ہوئی تھی۔ شاہد صاحب مصروف تھے اور مجھے موقع ملا کہ میں ان کو کمپنی دوں۔ وہ گورنر ہاﺅس سے ناشتہ کرنے کے لئے نظریہ پاکستان کے دفتر آئے تھے۔ اس سے پہلے ان کی ملاقات محبوب و مرشد مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی سے ہوتی تھی۔ ان سے گپ شپ رہی۔ ایک تعلق بن گیا۔ ایک ملاقات کے تعلق کو حاجی صاحب نے یاد رکھا۔ میری کوئی بھولی بسری خوش قسمتی ہے یا صرف حاجی صاحب کا بڑا پن ہے۔ میں نے سوچا کہ گورنر ہاﺅس میں تو اچھا ناشتہ ہوتا ہے مگر حاجی اعجاز نے دوستوں کی طرف سے ناشتے کو ترجیح دی۔ تب چودھری سرور گورنر ہاﺅس میں نہ تھے۔ ورنہ حاجی صاحب شاید ان کے ساتھ ناشتہ کرتے کہ چودھری سرور ایک دوستدار شخصیت کے آدمی ہیں۔ حاجی صاحب کا چرچا ہوا جب وہ صدر زرداری کے ساتھ ”ایوان صدر“ میں تھے۔ ایوان صدر کی فضاﺅں نے ایسا شخص نہ پہلے دیکھا اور نہ کبھی دیکھیں گے۔ تہمد (دھوتی) باندھے ہوئے ایک بہت باوقار سادہ انسان کے وہاں موجود سب لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے۔ حاجی صاحب کی نظر میں پورا ایوان صدر اور پورا پاکستان ہوتا۔ انہوں نے ایوان صدر میں موجودگی کے دوران کبھی کوئی ذاتی منفعت حاصل نہ کی۔ کوئی دنیاوی فائدہ نہ اٹھایا۔ وہ رومانی دنیا کے آدمی ہیں۔ بے نیاز، سرمست اور قلندر آخر کچھ تو ان کے پاس ہے۔ اللہ کی کرم نوازیوں کا کوئی سلسلہ ان کے ساتھ ہے۔ وہ سب دوستوں کے لئے خیر خواہ کے جذبے سے لبریز رہتے ہیں۔ صدر زرداری نے ان کی بہت تکریم کی اور سارا ایوان صدر ان کے حوالے کر دیا۔ کہتے ہیں کہ اپنی سیاست اور صبر و تحمل کی انتہاﺅں سے صدر نے حکومتی کامیابیاں حاصل کیں۔ صدر زرداری کا اعتماد کا کوئی تعلق حاجی صاحب کی رفاقت سے تھا۔ وہ صدر زرداری کو صرف ایک دوست سمجھتے تھے۔ وہ روائتی پیر نہیں ہیں۔ دوست پیر ہیں۔ میں نے کسی کو ان کے ساتھ مریدوں کی طرح ملتے نہیں دیکھا۔ خوددار اور خدمت گزار آدمی ہیں۔ مجید نظامی سے ملاقات رہی۔ نظامی صاحب کی تصویر ان کے پرس میں رہتی تھی۔ وہ نظامی صاحب کو رہبر پاکستان سمجھتے۔ ان کے دعا گو رہتے۔ مجید نظامی بھی ان سے بہت محبت رکھتے تھے۔
شادی میں ہم سے بہت محب سے ملے۔ وہاں انہوں نے خاص طور پر نوائے وقت کا پوچھا اور مجید نظامی کی جانشین محترمہ رمیزہ مجید نظامی کے لئے دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کے لئے دعا گو رہتا ہوں۔
ان کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں کوئی سرکاری آدمی نہ تھا۔ کوئی وزیر شذیر اور کوئی سرکاری افسر نہ تھا۔ سب کے سب دوست تھے۔ ایک سابق وزیر چودھری محمد اقبال تھے۔ وہ گوجرانوالہ سے ہیں۔ چودھری صاحب جب وزیر تھے تو بھی وزیر نہیں لگتے تھے۔ دل والے دوست ہیں۔ انہوں نے بڑی محبت سے ہمیں اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ لاہور سے کسی کو نہیں بلایا صرف آپ دونوں کو دعوت دی تھی۔ برادرم شاہد رشید کی محبت تو تھی مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں کیسے وہاں پہنچ گیا۔ اس سے پہلے صرف برادر کالم نگار فاروق عالم انصاری کے بیٹے کے ولیمے میں گوجرانوالہ گیا تھا کہ نوائے وقت کے دوست سعید آسی اور فضل اعوان بھی تھے۔ اس کے علاوہ کچھ صحافی محترم مجیب الرحمن شامی اور توفیق بٹ تھے۔ فاروق کے دوسرے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں نہ جا سکا۔ حاجی صاحب کی تقریب میں کوئی صحافی بھی نہ تھا۔ صرف اسلام آباد سے برادرم مظہر عباس سے ملاقات ہوئی۔