مختار مسعود صاحب کاکہنا ہے ”قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی“ پاکستان کی ریاست کے تمام شعبے بتدریج روبہ زوال ہیں۔ کہتے ہیں کہ اچھے اور قابل لوگ کسی بھی قوم کو بطور انعام عطاءکئے جاتے ہیں مگر ہماری بدقسمتی کہ سیاست ہو یا معیشت‘ ادب‘ شاعری‘ عدلیہ‘ بیورو کریسی ہو‘ صحافت ہو یا تجارت‘ فریب ہو یا خدمت‘ انسانیت کا کوئی شعبہ یعنی صحت یا تعلیم کیمطابق رموز و امور ہوں۔ کہیں بھی سربرآوردہ شخصیات دکھائی نہیں دیتیں جو راست باز‘ بااصول‘ محب وطن اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی حامل ہوں جسے ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کا سچا پیروکار سمجھیں، جو قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ سیاست بانجھ نظرآرہی ہے۔ صنعت و تجارت پر خودغرض مافیا کا قبضہ دکھائی دے رہا ہے۔ بیورو کریسی اور نچلے درجے کی عدلیہ اور انتظامیہ کرپشن کے گہرے گڑھوں میں گر چکی ہے اور اس پر مستزاد کہ اربوں روپے لوٹنے کے بعد پاکستان کی ریاست کے یہ ناسور یا تو نیب سے پلی بارگین کر لیتے ہیں یا این آر اوز کے ذریعے اپنے اوپر قائم مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہونے دیتے ہیں۔ آج صبح ایک ایسے ہی ننگِ وطن اور ننگِ قوم سابق بیورو کریٹ کی اخبار میں تصویر دیکھ رہا تھا جو محنت کشوں کے پنشن کا انتظام و انصرام کرنیوالے محکمے کا سربراہ تھا۔ 141 ارب روپے کا فراڈ کرنے کے بعد کئی مہینوں سے مفرور تھا۔ سپریم کورٹ نے اسکی عارضی ضمانت کینسل کی تو وہ سپریم کورٹ بار کونسل کے دفتر میں چھپ کر بیٹھ گیا مگر جب اسے گرفتار کیا گیا تو ہونا تو چاہئے تھا کہ اسکے چہرے پر کوئی ندامت اور پشیمانی کا احساس ہوتا مگر وہ ایف آئی اے کے اہلکار کے درمیان اطمینان سے بیٹھا میڈیا کے کیمروں کو دیکھ کر ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنا رہا تھا۔ کس قدر بے شرم لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس ملک نے عزت‘ دولت‘ شہرت اور اعلیٰ مرتبے سے نوازا مگر وہ ہزاروں سالوں کی زندگی کی آس میں وطن عزیز کو گِدھوں کی طرح نوچتے ہیں اور جب کبھی وہ ملکی قانون کے شکنجے میں آتے ہیں وہ بھی باامرِ مجبوری، جب ملکی حکمرانوں کے ساتھ ان کا مک مکا نہیں ہو پاتا ہے‘ تو وہ چاہے ایڈمرل منصور ہو ‘راﺅ شکیل ہو یا ظفر گوندل‘ وہ گرفتاری کے بعد میڈیا کو دیکھ کر وکٹری کا نشان ضرور بناتے ہیں۔
پاکستان کے باشعور شہریوں کی ایک قابل لحاظ تعداد بدقسمتی سے بڑے عرصے سے یہ رائے قائم کر چکی ہے کہ گزشتہ 25 سالوں کے دوران انہیں جو منتخب حکمران ملے ہیں‘ ان میں سے کسی بھی حکمران کا کردار اور رویئے اور طرز حکومت مثالی نہیں رہا ہے اور جب حکمران ہی کرپٹ‘ نااہل اور حکومتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرکے اپنا طرز زندگی شاہانہ بناتے ہوں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ انکے ماتحت وزراء‘ سیکرٹریز اور محکمہ جاتی افسران عوام کے خون پسینے کی کمائی کو نانا جی کی حلوائی کی دکان نہیں تصور کرینگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس حقیقت کی صداقت سے کوئی باشعور پاکستانی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ ملک کے سوچنے والے لوگوں کی غالب اکثریت ملک کے سماجی اقتصادی‘ سیاسی‘ سماجی حالات اور نظام حکومت اور اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ یہ عدم اطمینان صرف سطحی نہیں ہے بلکہ یہ احساس روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارا ریاستی ڈھانچہ بنیادی خطرات سے دوچار ہے اور ہمارا جسد قومی ایسے امراض کی گرفت میں آچکا ہے جو اگر مزید لاعلاج رہے تو حالات کو سنبھالنا ہمارے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے 15 ماہ کے دوران سوائے مہنگائی‘ مہنگی بجلی‘ گیس‘ بیروزگاری اور غربت کے کچھ نہیں دیا لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان اور طاہرالقادری انقلاب کے نام پر معاشرے میں انارکی پھیلا رہے ہیں تو اسکے قصوروار ہمارا حکمران طبقہ ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کا فقدان‘ بالائی طبقات کے کوتاہ اندیشانہ اور استحصالی رویئے ہیں۔ ملک کے عوام کی غالب اکثریت کی مختلف النوع محرومیوں اور دوسرے سنگین عوارض کی وجہ ہیں۔ مثلاً ایک ٹی وی چینل پرپنجاب کے وزیرقانون کے متعلق سنگین نوعیت کی ویڈیوز چلاتا ہے مگر مجال ہے کہ ہمارے وزیراعلیٰ اس کا نوٹس لیں۔ اسی طرح ہمارے وزیراعظم نہ تو پنجاب میں کسی قسم کی ہلاکتوں‘ تباہیوں‘ سیلابوں‘ بدعنوانیوں اور بیورو کریسی کی غفلتوں پر وزیراعلیٰ پنجاب‘ چیف سیکرٹری‘ وزراءاور دوسرے ذمہ داران کیخلاف قدم اٹھاتے ہیں اور نہ ہی وہ خواجہ آصف اور نرگس سیٹھی سے بازپرس کرتے ہیں کہ اربوں روپوں کی بجلی کی وصولیوں میں اووربلنگ کس طرح جائز ہے۔ جب بجلی 20‘ 20 گھنٹے نہیں آتی ہے تو عوام کے بل دوگنا کیسے آجاتے ہیں۔ دس ہزار روپے کمانے والا مزدور کیسے 12 ہزار روپے‘ ایک بلب روشن رکھنے کا ادا کرے؟ جی ہاں یہ سارے زائد بل لائن لاسز اور بجلی چوری کی مد میں ہیں جو واپڈا اور بجلی ڈسٹری بیوشن والی کمپنیوں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے بڑے بڑے صنعتکار‘ سیاستدان اور اعلیٰ انتظامیہ کے عہدیدار کرتے ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم پچھلے سالوں سے معاشی ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کے جن ظاہری‘ چمک دمک والے تصورات کو آزما رہے ہیں ‘ وہ سب کے سب سراب ثابت ہو چکے ہیں اور اب ہم ان میں سے آخری تصور یعنی جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی‘ میرٹ ‘ اعلیٰ عدلیہ کا کردار اور بااصول سول اور ملٹری بیورو کریسی کی تنزلی اور گراوٹ نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آزادی سے ملک کے عوام کو کیا حاصل ہو رہا ہے۔ کیا اس لئے ہمارے 20 لاکھ آباﺅاجداد نے قربانیاں دی تھیں کہ ان کی نسلوں کے بال و پر گدھ نوچیں‘ ان کی جان و مال‘ آبرو‘ عصمت‘ عزت اور وقار کا کوئی تحفظ کرنے والا نہ ہو‘ انہیں اپنے بچوں کیلئے بہتر خوراک‘ لباس اور تعلیم نہ میسر ہو۔ وہ اپنے گھروں میں اپنے آپ کو محفوظ تصور نہ کرتے ہوں۔ وہ کسی سرکاری اہلکار‘ کسی پولیس مین یا کسی جج پر اعتماد نہ کر سکتے ہوں۔ وہ اپنے مذہبی اصولوں‘ سیاسی اور سماجی سوچ فکرکے ساتھ آبرومندانہ زندگی بسر نہ کر سکتے ہوں تو پھر کیسے کوئی اس ملک کے مستقبل کو روشن قراردے سکتا ہے۔ جس انداز میں 1985ءسے آج تک کا جمہوری تجربہ چل رہا ہے‘ اس کے متعلق شدید ذہنی تحفظات رکھنے کے باوجود میں ارتقائی اصلاح کے عمل پر یقین رکھتا ہوں جو گرچہ انتہائی سست اور جزوی فوائد کا حامل ہے مگر میرا یہ نظریہ ہے کہ ہمیں جمہوری نظام میں اصلاحات اور احتساب کے کڑے نظام کو رائج کرکے ہمہ جہتی اصلاح کی فوری ضرورت ہے۔ میری تشویش یہ ہے کہ ہماری حالت کہیں یہ نہ ہو جائے کہ ....ع
تاتریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود