کراچی (این این آئی + آئی این پی) سندھ اسمبلی نے جمعرات کو سندھ کی تقسیم کے خلاف دو قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کرلیں۔ ایک قرار داد پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان نے پیش کی تھی اور دوسری قرارداد اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی۔ پہلی قرارداد پیش کرنے کے دوران پیپلز پارٹی کے ارکان نے ” مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں “ کے نعرے لگائے۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ارکان اجلاس میں موجود نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اپنے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف اجلا س سے بائیکاٹ کیا تھا۔ دونوں قراردادوں میں قرار دیاگیا سندھ کی موجودہ سرحدیں برقرار رہنی چاہئےں۔ دونوں قرار دادوں میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین یا ایم کیو ایم کے کسی رہنما کے بیانات کا حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا یہ قرار دادیں کیوں پیش کی جا رہی ہیں۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے تاخیر سے ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کی صدارت میں اسمبلی کی نئی عمارت میں شروع ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں کی بجائے ایوان میں کھڑے رہے اور تلاوت کے فوراً بعد اپوزیشن لیڈر شہریار مہر نے ڈپٹی سپیکر کو اپوزیشن کے تمام ممبران کو ایک ساتھ نشستوں کی بجائے علیحدہ علیحدہ نشستیں الاٹ کئے جانے پر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا جب تک اپوزیشن کے تمام 19 ارکان کو ایک ساتھ نشستیں الاٹ نہیں کی جاتیں وہ اجلاس کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن لیڈر سے استدعا کی چونکہ نشستوں کی الاٹمنٹ سپیکر صاحب کرتے ہیں اس لئے وہ اس معاملے کو طول دینے کی بجائے آج جہاں دستیاب نشستیں ہیں وہاں بیٹھ جائیں اور اجلاس کے بعد اس معاملے کو حل کرلیا جائے گا تاہم اپوزیشن لیڈر اور دیگر ارکان نے ان کی کسی بات کو تسلیم کرنے کی بجائے مستقل شور شرابہ جاری رکھا اس موقع پر اپوزیشن لیڈر شہر یار مہر نے کہا ڈپٹی سپیکرکا رویہ اپوزیشن کے ساتھ انتہائی نازیبا اور آمرانہ ہے۔ اپوزیشن ارکان ایوان میں سپیکر ڈائس کے سامنے زمین پر بیٹھ گئے جبکہ اپوزیشن لیڈر مستقل سیکرٹری سندھ اسمبلی کا مائیک استعمال کرتے رہے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے۔ اس دوران متعدد بار اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ جاری رہا جبکہ اپوزیشن ارکان کی جانب سے مسلسل شور شرابے کے باعث ایوان مچھلی بازار بنا رہا۔ بعد ازاں وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو اور پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور سنیئر وزیر تعلیم نثارکھوڑو کی یقین دہانی پر اپوزیشن ارکان دستیاب نشستوں پر تو بیٹھ گئے تاہم انہوں نے نشستوں پر بیٹھتے ہی ڈپٹی سپیکر سے اپنی قرارداد فوری طور پر پیش کرنے کی اجازت طلب کی، جس پرڈپٹی سپیکرنے اپوزیشن لیڈر کے رویے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا وہ ایوان کو آئین کے مطابق ہی چلائیں گی اور کسی کو یہ حق نہیں وہ سپیکر کو کسی قسم کا ڈکٹیشن دے، جس پر اپوزیشن ارکان نے ایک بار پھر شدید نعرے بازی کی اور کہا سندھ کے تقسیم کے خلاف ہماری قرارداد کو پیش کرنے کی اجازت نہ دے کر پیپلز پارٹی سندھ دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے، جس پر پیپلز پارٹی کی خواتین اور مرد ارکان ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور ”مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں“ سمیت دیگر نعرے لگائے اس دوران ڈپٹی سپیکر نے حکومتی ارکان سہیل انور سیال کو اپنی قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آﺅٹ کردیا۔ سہیل انور خان سیال نے قرارداد پیش کی اور ان کے بعد صوبائی وزراءڈاکٹرسکندر میندھرو، نثار احمدکھوڑواوردیگر نے بھی یہ قرارداد پیش کی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے تمام ارکان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا وہ اس قرارداد کے محرک ہیں۔ ایوان نے یہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ اس قرارداد میں کہا گیا ”آئین کی آرٹیکل2- کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرحدیں چار صوبوں پر مشتمل ہوں گی۔ ان میں سے سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، جس کی مالا مال ثقافت، تہذیب، زبان اور تاریخ ہے۔ یہ تاریخ پانچ ہزار سال قبل مسیح سے بھی زیادہ پہلے کی ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگ مثلاً ارغون، ترخان، منگول اور دیگر سندھ آئے اور اس میں ضم ہوگئے۔ سندھ کو بابل اسلام ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ تخلیق پاکستان کی بنیاد سندھ اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے رکھی گئی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف سندھ میں پیدا ہوئے بلکہ پہلے سربراہ مملکت کی حیثیت سے اس معزز ایوان کی صدارت کی اور کراچی ملک کا دارالخلافہ بنا۔ جمہوریت میں لوگوں کی مرضی کا اظہار ہوتا ہے اور آئین میں نئے صوبے تخلیق کرنے کا واضح راستہ بتایا گیا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرتا ہے تو وہ صوبوں کی سرحدوں میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 239 (4)صوبائی سرحدوںکا تحفظ کرتا ہے اور یہ سرحدیں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتی، جب تک پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اور متعلقہ صوبے کی دو تہائی اکثریت اس کا فیصلہ نہ کرلے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور میں نئے صوبے کی تجویز دیتی ہے اور وہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلیتی ہے، پھر اس کا یہ حق ہے وہ صوبے کا مطالبہ کرے اور دوسری سیاسی جماعتوں کا بھی یہ جمہوری حق ہے وہ اس کی مخالفت کرے۔ سندھ کے شاندار ماضی اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اسمبلی قرار دیتی ہے سندھ صدیوں سے ایک اکائی رہا ہے اور اس کی موجودہ سرحدیں ہمیشہ اسی طرح برقرار رہیں گی۔ انشاءاللہ۔“ یہ قرارداد منظور ہونے کے بعد اپوزیشن ارکان ایوان میں واپس آگئے۔ اپوزیشن لیڈر شہریار خان مہر نے سندھ کی تقسیم کے خلاف اپنی قرارداد پیش کی۔ وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا ایک موضوع پر دو قراردادیں ایک دن میں نہیں لائی جاسکتیں لیکن معاملے کی اہمیت کے پیش نظر ہم اپوزیشن کی قرارداد کی مخالفت نہیں کرتے۔ سپیکر کو اختیار ہے وہ اس کی اجازت دے دیں۔ ڈپٹی سپیکر کی اجازت ملنے کے بعد شہر یار مہر نے اپنی قرارداد پیش کی۔ اسے بھی اسمبلی نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ اس قرار داد میں کہا گیا ”یہ اسمبلی قرار دیتی ہے ہم صوبہ سندھ کی یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے ہیں سندھ کی سرحدیں جیسی ہیں، ویسی ہی رہنی چاہئیں۔ “ آئی این پی کے مطابق سندھ اسمبلی کی نئی عمارت میں ہونیوالا پہلا اجلاس ہی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا ، اپوزیشن ارکان نے نشستیں الاٹ نہ ہونے پر سپیکر کی نشست کے سامنے دھرنادیا اور شور شرابے کے بعد علامتی واک آﺅٹ کرگئے۔ حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی کی اور بددعائیں دینے لگے۔صوبائی وزیراطلاعات شرجیل میمن کاکہنا تھا سپیکر کی مرضی ہے جسے چاہے جو سیٹ الاٹ کرے جس پر اپوزیشن لیڈرکاکہنا تھا کیا ایوان شرجیل میمن نے خرید لیا ہے؟ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ رات اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاجاً سندھ اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے ایم کیو ایم کے وزراءاور مشیران نے کام چھوڑ دیا ہے۔ حیدر عباس رضوی کا مزید کہنا تھا ایم کیو ایم قیادت سندھ حکومت سے علیحدگی پر بھی غور کررہی ہے، ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ ہے اس کے باوجود حکومت کا کوئی بھی شخص ہماری دادرسی کو نہیں پہنچا۔کراچی سے سٹاف رپورٹر کے مطابق سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے گالی گلوچ، سیاسی رہنماﺅں کا مذاق اڑانے اور بے بنیاد الزامات عائد کرنے پر ارکان سندھ اسمبلی پھٹ پڑے اور انہوں نے عمران خان کی مبینہ بدتمیزی اور بدزبانی پر سخت احتجاج کیا۔ صوبائی وزراءمنظور وسان، نثار کھوڑو اور جمیل الزمان، پیپلزپارٹی کے رکن ڈاکٹر مہیش ملانی، امتیاز احمد شیخ نے عمران خان سے کہا وہ بدزبانی اور جھوٹ الزامات لگانے کا سلسلہ بند کریں۔ انہوں نے کہا اے سی کنٹینرز میں بیٹھ کر وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سندھ اسمبلی کی نئی عمارت میں ہونے والا اجلاس شروع ہوتے ہی بدمزگی کی نذر ہو گیا۔
سندھ اسمبلی/ قرارداد