حضور ؐ کا قرآن سننے خود تشریف لانا

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  ؒ اپنے والد محترم شاہ عبدالرحیم  ؒ کی زبانی بیان فرماتے ہیں:
پنجاب کے ایک بزرگ اور حضرت سید عبداللہ صاحب دونوں قرآن مجید کا ورد کر رہے تھے کہ کچھ لوگ عرب صورت سبز پوش گروہ درگروہ ظاہر ہوئے۔ ان کے سردار نے مسجد کے قریب کھڑے ہو کر ان قاریوں کی قرات کو سنا اور کہا:
بَارَکَ اللہ ُ اَدَّیْتَ حَقَّ الْقُرْاٰن
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ  مجھے برکت عطا فرما  تو نے قرآن پاک کا حق ادا کر دیا اور مراجعت فرمائی۔ ان عزیزوں کی عادت تھی کہ قرآن پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے تھے اور کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ جب سورۃ ختم کر لی تو اس بزرگ نے سید عبداللہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ تھے ان کی ہیبت سے میرا دل کانپ اٹھا لیکن قرآن مجید کے احترام کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا۔
سید عبداللہ نے کہا کہ اس اس قسم کے لوگ تھے جب ان کا سردار پہنچا تو میں بیٹھا نہ رہ سکا  اور  اٹھ کر ان کی تعظیم کی۔
اسی گفتگو میں ہی تھے کہ ایک اور آدمی اسی وضع کا آیا اور کہا کہ گزشتہ رات آنحضرت ؐ اپنے صحابہ کے مجمع میں تشریف فرما تھے اور اس حافظ کی جواس جنگل میں ٹھہرا ہوا ہے، تعریف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ علی الصبح میں اس سے ملوں گا اور اس کی قرات سنوں گا۔ آپ تشریف لائے تھے یا نہیں؟ اور اگر تشریف لائے تھے تو کہاں گئے۔
ان دونوں نے جب یہ بات سنی تو دائیں بائیں بھاگے لیکن کوئی نشان نہ ملا۔ راقم الحروف کا گمان ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد مدت دراز تک اس جنگل سے خوشبو آتی تھی۔
………………………
حضور ؐ کے والد محترم کا جسم مبارک تروتازہ
21جنوری1978ء کے روز نامہ نوائے وقت اور روزنامہ مشرق وغیرہ میں ہے کہ مسجد نبوی میں توسیع کی غرض سے حضورؐ کے والد محترم سمیت چھ صحابہ کرام کی قبریں کشاء کی گئیں سب کے جسم ترو تازہ تھے اور خوشبوئوں کے حلے آ رہے تھے۔
…………………

ایک بزرگ کا قبر میں قرآن پڑھنا
 دلائل النبوۃ میں ایک صحابی سے روایت  ہے  کہ ایک شخص نے ایک قبر کھودی تو اس میں ایک روشن دان دوسری قبر کی طرف کھل گیا۔ اب جو انہوں نے دیکھا تو ایک بزرگ تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور انکے سامنے قرآن حکیم رکھا ہوا تھا اور اس کے سامنے ہی سبز رنگ کا باغیچہ ہے۔ یہ زمین احد کا واقعہ ہے اور یہ شخص شہید تھا کیونکہ اس کے چہرے پر زخم تھے۔
…………………………
ایک ولی اللہ کا قبر میں قرآن پڑھنا
پرہیز گار اور صاحب نظر حضرات میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے ایک قبر کھودی تو دیکھا کہ قبر کے اندر بغلی طرف ایک شخص تخت پر بیٹھا قرآن پاک پڑھ رہا ہے اور جس تخت پر وہ قرآن پاک پڑھ رہا ہے اس کے نیچے ایک نہر جاری ہے۔
اس منظر کو دیکھ کر میں بے ہوش ہو گیا۔ مجھے کئی روز کے بعد ہوش آیا تو میں نے لوگوں کو سارا ماجرا سنایا۔
ایک شخص نے کہا کہ مجھے اس قبر تک لے چلو میں نے اگلے دن جانے کی بات کی۔ مگر اس کے بعد جب میں رات کو سویا تو صاحب قبر نے خواب میں آ کر ڈانٹا کہ خبردار جو کسی کو میری قبر کا پتہ بتایا۔میں نے اپنے ارادے سے توبہ کی اور کسی کو اس قبر کے بارے میں نہیں بتایا۔
…………………………
احمد بن نصر کا بعد از شہادت سولی پر سورہ یٰسین پڑھنا
ذہبی نے تاریخ میں بیان کیا کہ احمد بن نصر خزاعی جو فن حدیث کے امام گزرے ہیں ان کو حکمران وثق باللہ نے خلق قرآن کا قول قبول کرنے پر مجبور کیا لیکن آپ نے انکار کر دیا خلیفہ نے حکم دیا کہ ان کو قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے۔ جب آپ کو لٹکا دیا تو آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو گیا۔ اسے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ پھر اسی طرف ہو گیا تو اس نے ایک شخص مقرر کیا جو ان کے منہ کو قبلہ سے منحرف کرتا رہے۔ جو شخص اس کام پر متعین تھا اس نے بیان کیا کہ وہ سر ہر رات کو قبلہ کی طرف پھر جاتا تھا اور بزبان فصیح سورہ یٰسین پڑھتا تھا۔
……………
حضرت ابو الحسن بن شعرہ رحمتہ اللہ عنہ کا قبر میں قرآن پڑھنا
حضرت ابو الحسن بن شعرہ رحمتہ اللہ عنہ کا نام عمرو بن عثمان بن الحکم بن شعرہ ہے۔ آپ صوفیوں کے مشائخ ہیں ابو سعید مالیتی اپنی اربعین میں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ مصر کے مشائخ میں سے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ان کی قبر سے قرآن پاک پڑھنے کی آواز آتی تھی۔ جو شخص بھی ان کی قبر کی زیارت کو جاتا وہ آواز سنا کرتا تھا۔
………………………
ایک شہید کا نصرانی بادشاہ کو قرآن سنانا
عبدالرحمن بن یزید بن اسلم سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رومیوں سے جنگ کرتے رہے تھے اتفاقاً وہ گرفتار کر لئے گئے۔ ان کا بادشاہ آیا، اور اس نے انہیں حکم دیا کہ وہ عیسائی مذہب قبول کر لیں۔ مگر انہوں نے عیسائیت کا مذہب قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ چانچہ بادشاہ نے ان کو شہید کر دینے کا حکم دیا۔ یہ منظر دیکھنے کے لئے بادشاہ ایک اونچے ٹیلہ پر نہر کے کنارے بیٹھ گیا اب اس نے ایک شخص کوک شہید کر دیا اور اس کا سر جسم سے جدا کر کے نہر میں ڈلوا دیا۔ چنانچہ جیسے ہی اس شہید کا سر نہر میں پھینکا گیا تو اس شہید کا سر نہر میں پانی کے اوپر کھڑا ہو گیا اور بادشاہ اور اس کے فوجیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا۔
یَا اَیَّتُھَا النّعفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُOاِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃًOفَادْ خْلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیO
اے مطمئن جان اپنے رب کی طرف واپس لوٹ آ۔ تو اپنے رب پر راضی اور تیرا رب تجھ پر راضی۔ میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
اور وہ لوگ وہاں پر دہشت زدہ ہو گئے اور باقی لوگوں کو شہید کرنے سے رک گئے۔
………………………
قبر میں تلاوت قرآن
ابن مندہ نے عاصم سقطی سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
ہم نے بلخ میں ایک قبر کھودی تو اس میں ایک سوراخ تھا اس میں سے جب دیکھا تو ایک شیخ جو سبزہ سے ڈھکا ہوا تھا ، تلاوت قرآن میں مصروف تھا۔
………………………
حضور ؐ کا شہداء احد کے متعلق ایک اور اعلان
نبی ؐ ہر سال شہداء احد کی قبور کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے جب گھاٹی پر پہنچتے تھے تو با آواز بلند فرماتے:
’’ سلام علیک بما صبر تم فنعم عقبی الدار‘‘
یہی معمول ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا رہا ہے اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی آ کر دعا کرتیں تھیں اورحضرت سعد بن ابی وقاص رپی اللہ عنہ بھی آ کر سلام کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے تھے کہ ان حضرات کو سلام کرو جو تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں۔
………………………

شہید ہر حال میں زندہ ہے
مالک نے عبدالرحمن بن ابی صعصعہ سے روایت کی ہے:
ان کو معلوم ہوا ہے کہ عمرو بن جموح اور عبداللہ بن عمرو کی قبروں کو سیلاب نے کھول دیا دونوں ایک ہی قبر میں دفن تھے اور جنگ احد میں شہید ہوئے تھے تو لوگوں نے ان کو کھودا کہ دوسری جگہ منتقل کر دیں تو ایسا معلوم ہوا کہ ان کو ابھی کسی نے دفن کیا ہے۔ ان میں سے ایک اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ ہاتھ کو ہٹایا گیا مگر انہوں نے پھروہیں رکھ لیا حالانکہ یہ واقعہ غزوۂ احد کے چھیالیس سال بعد کا ہے۔
……………………
شہید کا زخم پر ہاتھ رکھنا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
اسی طرح حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہھما نے ایک نہر جاری کرنے کا حکم تو انہیں بتایا گیا کہ راستے میں شھدائے احد کی قبریں ہیں اور ان کو راستے سے ہٹائے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔
انہوں نے ان قبور کی منتقلی کے احکامات جاری کر دیئے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے شھدائے کرام کے جسموں کو دیکھا کہ لوگ ان کو کندھوں پر اٹھا کر لے جا رہے تھے اور وہ ایسے محسوس ہو رہے تھے جیسے سو رہے ہوں۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے پائوں کے ایک طرف بیلچہ لگ گیا تو وہاں سے خون پھوٹ کر جاری ہو گیا۔
……………………
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا بعد از وصال خواب کی تعبیر بتانا
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ شیخ علی رحمتہ اللہ علیہ نے خواب دیکھا کہ میں عرش سر پر اٹھائے جا رہا ہوں ۔ جب دن ہوا تو سوچنے لگے کہ یہ خواب کس کے آگے بیان کروں؟۔ پھر خیال آیا کہ خواجہ با یزید بسطامی کے سوا کون ہے جو اس کی تعبیر کر سکے۔
چنانچہ جب شیخ علی رحمتہ اللہ علیہ گئے تو دیکھا کہ محلہ میں کہرام برپا ہے۔ حیران ہو کر پوچھا کہ کرام کی وجہ کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ خواجہ با یزید انتقال فرما گئے ہیں۔
شیخ علی نعرہ مارتے ہوئے(کلمہ شہادت کہتے ہوئے) روانہ ہوئے جب جنازہ کے قریب ہوئے تب جنازہ شہر سے نکل رہا تھا۔ خلقت عام تھی آپ بھیڑ کو چیراتے ہوئے آئے اور جنازے کو کندھا دیا اور عرض کی:
یا خواجہ با یزید میں خواب کی تعبیر پوچھنے آیا تھا۔
حضرت با یزید نے فرمایا: اے علی جو خواب تو نے دیکھا تھا اس کی تعبیر یہی ہے کہ با یزید کا جنازہ عرش خدا ہے جو تو اپنے سر پر اٹھائے جا رہا ہے۔
…………………
غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قبر میں استقبال کیا
شیخ علی ہیتی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور شیخ بقاء بن بطوء رحمتہ اللہ علیہ آپ کے ساتھ حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر زیارت کے لئے گئے اس وقت میں نے دیکھا کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی قبر سے نکل کر آپ کو اپنے سینے سے لگایا اور کہا: شیخ عبدالقادر! میں علم شریعت و علم حقیقت و علم حال میں میں تمہارا محتاج ہوں۔
………………………
غوث پاک کا حضرت معروف کرخی سے ان کی قبر میں کلام کرنا
شیخ علی ہیتی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
ایک دفعہ میں حضور غورث پاک کے ساتھ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کے لئے گیا۔ آپ نے فرمایا:
(یعنی ہم تم سے دو درجہ بڑھ گئے) تو شیخ موصوف نے اپنی قبر میں سے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
اے اپنے زمانہ کے سردار آپ پر بھی سلامتی ہو۔

ای پیپر دی نیشن