پریشان حال، درماندہ پھرتا عام آدمی، نہ انصاف میسر، نہ پیٹ بھرنے کو تسلی بخش خوراک، اِس سوسائٹی میں ہر آسائش سہولت، وسائل و مواقع کی فراوانی کا راستہ اشرافیہ کی کالونیوں کی طرف مُڑ جاتا ہے“ عام آدمی تو خوفزدہ، متوحش ہے پر جب ”عدالت عظمی“ حیرانگی ظاہر کر ے کہ ”سندھ“ میں لوگ کمیشن کا امتحان پاس کیے بغیر کیسے تعینات ہو جاتے ہیں تو ہمارے جیسے لوگوں کی بے بسی کا معیار، مقدار سمجھ میں آجانا چاہیے.... عوام ہی بے بس نہیں، اداروں کے بھی ہاتھ پاو¾ں بندھے معلوم ہوتے ہیں۔ حکومتی دلچسپی، فعالیت، موجودگی بھی پُر اسرار طور پر غائب ہے آبادی بڑھتی جارہی ہے، وسائل گھٹ رہے ہیں۔ دونوں میں توازن دن بدن خطرناک ہو رہا ہے۔ مردم شماری انسانی سے زیادہ آئینی ضرورت ہے معاملہ لٹکا ہو ا ہے یا لٹکایا گیا، وجوہات لکھ کر الفاظ ضائع کرنے کا موڈ نہیں۔ اعلی عدلیہ نے کہہ دیا ہے کہ ناکامی کے نتائج حکومت کو بُھگتنا پڑیں گے، حکومت آئینی ذِمہ داری پوری نہیں کرسکی۔ ”سُپریم کورٹ سے لیکر ہائیکورٹ“ تک مفاد عامہ کے کیسز نمٹارہے ہیں مگر عمل درآمد ؟ کچھ دن پہلے ”لاہور ہائی کورٹ“ نے کروڑوں کی کرپشن پر فرمایا کہ بادی النظر میں محکمہ اینٹی کرپشن نا اہل افسروں سے بھرا ہوا ہے۔ سوسائٹی کی اکثریت کرپشن کو مالی غبن کے طور پر دیکھتی ہے جبکہ انتظامی معاملات سے تعلیم تک نا اہلی، اقربا پروری بدمعاملگی۔ عہدے کا غلط استعمال، دھوکہ دہی، سبھی امور کرپشن کی آل اولاد ہیں۔ کیا یہ کرپشن نہیں کہ ”وفاقی اُردو یونیورسٹی“ کا وائس چانسلر جعلی ڈگری لیکر کُرسی پر بیٹھا رہے؟ کچھ سال پہلے ”جعلی ڈگری“ پر کافی شورو غوغا مچا تھا پھر اُس کا حال بھی ”بریکنگ نیوز“ والا ہوا، زیادہ دن نہیں گُزرے قابل احترام چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے ریمارکس تھے کہ غافل ٹھیک ہو جائیں، بُری شہرت والوں کو فارغ کر دینگے۔ ادارے میں خوف نہیں ہونا چاہیے.... ”صرف اللہ سے ڈریں“.... یقینا 20" کروڑ پاکستانی ”اللہ تعالی“ سے ڈرتے ہیں مگر احکامات نہیں مانتے.... زبان سے اقرار کرتے ہیں مگر بھروسہ، یقین دنیاوی اسباب۔ مال پر زیادہ محکم ہے۔ ”سکھر سول ہسپتال“ انتظامیہ کی عدم توجگی باعث ”4نومولود“ دم توڑ گئے۔ ایک جان اتنی قیمتی ہے یہاں اکٹھے ”4معصوم“؟ کیا ہم کو ڈر نہیں لگتا، کیا یہ اپنے فرائض سے ناانصافی نہیں؟ یہ غفلت کرپشن نہیں؟ اللہ تعالی سے ڈرنے والوں نے ہر عید، تہوار کے معمولات کو اِس مرتبہ بھی برقرار رکھا.... ٹرانسپورٹ سے لیکر دھینا، سبز مرچ تک مُنہ مانگے دام وصول کیے یوں ”اللہ تعالی“ سے ڈرنے والوں نے ”اللہ تعالی“ کے پسندیدہ ایام میں خوب ثواب کمایا، ہم ”20 کروڑ پاکستانی“ جو اپنے لیڈروں کو ”دیوتاو¾ں“ کے رُوپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں سے ”فرشتوں“ جیسے افعال کی توقعات باندھتے ہیں۔ ہمارے اپنے اعمال کیا ہیں۔ ایک لِٹر خالص دودھ تو اپنے ہم وطن کو دینے کی ہمت نہیں اور حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خلافت راشدہ کے حکمرانوں والے طور طریقوں پر چلیں۔ بیرون ممالک سے دولت یہاں لے آئیں۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ عوام کو ملاوٹ سے پاک خوراک اور دھونس، دباو¾ کے بغیر معاش برابری کے مواقع، انصاف فراہم کرے۔ خالص خوراک کے لیے بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ جب ©عدالت عظمٰی© قرار دیتی ہے کہ مضرِ صحت خوراک کے خلاف اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے مگر یہ ذمہ داری عدلیہ ادا کر رہی ہے۔ ملاوٹی دودھ، ناقص خوراک کی فروخت نظر انداز نہیں کر سکتے۔ قارئین۔ یہ نا اہلی ہے۔ بد انتظامی ہے۔ قصداً نظر انداز کرنا دلچسپی نہیں یا پھر ڈھیر سارا منافع کمانا۔ اِس کا تعین آپ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ یہاں اِس امر کو ملحوظ رکھنا دانشمندی ہوگی کہ ہم اُس ملک کے شہری ہیں جہاں چہار جانب افراتفری۔ ہوس زر ہوس اقتدار، ہوس زمین طمع کی وبائیں طاعون کی طرح پنجے گاڑ چُکی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر زندوں کو پھڑکا دیا جاتا ہے۔ کہیں آگے نکلنے، جلدی پہنچنے کی دوڑ درجن درجن لوگ نگل لیتی ہے۔ جہاں ہر شخص صرف منافع نہیں، بے تحاشا منافع کی دوکان کے علاوہ بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ خود پر عائد فرائض کی بجا آوری یاد نہیں مگر دوسروں کا حق چھیننے میں شیر ہیں۔ اِس سمے جب ہر طرف سے مایوسی کے پھریرے لہراتے نظر آئیں تو لا محالہ نظر اُنھی پر جاتی ہے جو داد رسی کی قوت۔ صلاحیت رکھتے ہوں۔ عزت مآب ”چیف جسٹس پاکستان“ نے ہفتہ قبل فرمایا کہ سُپریم کورٹ سے وہی توقعات رکھیں جن کی آئین اجازت دیتا ہے۔ تمام ادارے آئین کے مطابق کام کریں تو ہی گڈ گورننس ممکن ہے۔ ہڈی کا ڈاکٹر کینسر کا علاج نہیں کرسکتا۔ مزید فرمایا دہشت گردوں کو اندورنی حمایت حاصل ہوتی ہے اور بعض سیاسی جماعتیں بھی ایسے عناصر کی حمایت کرتی ہیں۔ ”محترم المقام چیف صاحب“ اِسی آئین میں عوام کے بنیادی حقوق کا ذکر ہے، ریاست کی شہریوں بابت ذمہ داریوں پر لاتعداد ابواب ہیں، حقِ حکمرانی کی اہلیت، صلاحیت پر تفصیلی تحاریر ہیں۔ اب خلاف ورزی پر عوام کِس سے رجوع کریں ؟ ہر ادارے کا اپنا چارٹر ہے پھر ماتحت۔ ملازمین کوتاہی۔ غفلت کیوں برتتے ہیں؟۔ ہر ادارے میں کوتاہیاں غلطیاں ہوتی ہیں۔ مگر ان کو ٹھیک کرنا ”سربراہ“ کی ذمہ داری ہے۔ قوانین میں نقائص، سقم وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوتے جاتے ہیں ان کی درستگی کا بوجھ بھی ”سربراہ“ کے کندھوں پر محسوس ہونا چاہیے۔ عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے، کِسی کو تو بے حسی، لاپرواہی، عد م دلچسپی کے امراض کا شافی علاج تجویز کرنا پڑے گا۔ معاشرے کو تباہی میں دھکیلنے والے ٹی وی پروگرامز کو بھی روکنا پڑے گا، شُتر بے مہار انڈین فلموں کے سیلاب پر پابندی لگا دیں۔ اب عوام تقاریر۔ بیانات سے آگے کی توقع کر رہے ہیں۔ آئین کی سلامتی سے جغرافیائی سرحدوں کی سلامتی تک ذمہ دار ادارے، حکومیتں متفقہ لائحہ عمل اپنا کر قومی پلان کی صورت عوامی مسائل کے حل کی طرف آئیں۔ عوام کو ”ووٹ بینک“ سے زیادہ بلند درجہ، حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں واقعتا ”اللہ تعالی “سے ڈرنا چاہیے۔ صرف ”رب کریم ذی شان“ ہی حقیقی قوت نافذہ کے حامل ہیں۔ مالک ہیں۔ اگر ہم دلوں میں خوفِ”اللہ“ رکھ کر کام کریں تو ہمیں کِسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں، ڈرتا صرف چور ہے ایماندار، صاف گو، سچے آدمی کو کِس چیز کا ڈر۔ سچ بولنے پر معطل ہونے۔ نوکری سے نکالے جانے کا خوف تبھی دُور ہو سکتا ہے جب ”اللہ تعالی“ کو حقیقی رازق مان لیں گے۔ سب ڈر، خوف اندیشے، وسوسے صرف ایک یقینِ محکم کی مار ہیں۔ ”اللہ تعالی“ ہم سب کو سچ بولنے، سچائی کا ساتھ دینے، اپنے عہد ے کے ساتھ انصاف کرنے، لوگوں کے معاملات عدل سے نمٹانے کی توفیق، ہمت عطا فرمائے آمین ”پاکستان زندہ باد“