اللہ محمد چار یار حاجی، خواجہ، قطب، فرید نور العارفین حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ

Sep 26, 2017

ضیاءالحق سرحدی
zia_sarhadi@yahoo.com

آپ کے دربار پر حکمران اور بڑے بڑے ولی اللہ ہاتھ باندھے حاضری کے لئے آتے ہیں آپ کے فیض اور عنایات کا چشمہ بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے تمام انسانوں کے لئے جاری ہے جس سے تمام تشنگان دین و دنیا اور اہل معرفت سیراب ہو تے ہیں تاریخ برِصغیر کے اوراق کو پلٹا جائے تو کہیں داتا گنج بخشؒ شہرِ لاہور کو عروس البلاد کے درجے پر پہنچاتے نظر آئیں گے، کہیں حضرت مجدد الف ثانی ؒ قصرِ خلافت میں کھڑے ہو کرجہانگیر کو للکار رہے ہوں گے، تو کہیں بہاو¿ الدین زکریا ملتانی ؒلوگوں کے دلوںمیں اذان دے رہے ہوں گے ۔ بزرگان دین کا یہ سلسلہ پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒسے شروع ہو کرخواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ ، حضرت بختیار کاکی ؒ ، حضرت علاﺅالدین احمد صابر کلیری ؒ ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ ، حضرت داتا گنج بخش ؒ ، حضرت سید عثمان مروندی المعروف حضرت شہباز قلندر ؒ ،حضرت بو علی قلندر پانی پتی ؒ، حضرت بری امام سر کار ؒ، حضرت پیر مر شد ی سید عبد الرحمن شاہ با با چشتی صابری ؒ ، حضرت مو لا نا سید امیر شاہ گیلانی قادری المعروف مولوی جی ؒ یکہ توت شریف پشاور اور پیر و مرشدی رئیس الفقراءحضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با صاحب مد ظلہ العالی تمبرپورہ شریف پشاور تک جا پہنچتا ہے۔آپ بزرگان دین کی شب و روز محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
اللہ تعالی نے حضرت محمد کو تمام جہانوں کے لئے نبیءآخر الزماںاور رحمت بنا کر بھیجا اوراس کے بعد نبوت کا یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ کیونکہ ان کے بعدکسی نبی نے نہیں آناتھا صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اور اولیاءکرام تبلیغ اسلام کے لئے جہاں جہاں ان کا قیام ہوا وہ مقام انہی کے نام سے منسوب ہو گئے جیلان سے پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒبغداد پہنچے تو بغداد کی پہچان بن گئے، ہجویر سے داتا گنج بخش سرکار ؒلاہور پہنچے تو لاہور کی پہچان بن گئے اور لوگوں کی زبان پر لاہور کا دوسرا نام ”داتا کی نگری “ آگیا ،خواجہ خواجگان معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ اجمیر پہنچے تو اجمیرکی پہچان بن گئے۔ اور پھر انہی بر گزیدہ بندوں میں سے ایک برگزیدہ بندہ جب اجودھن پہنچا تو یہ علاقہ پاک پتن کے نام سے مشہور ہو گیا۔ حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر ؒ تھا ”نور العارفین بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ“ کا عہد572 ہجری سے 665 ہجری تک بنتا ہے آپ کا عرصہ حیات تقریباً 93 برس پر محیط ہے۔بابا فرید گنج شکرؒ نے اپنی تمام زندگی بھلائی کی تعلیمات اور برصغیر میں اسلام کے بول بالا کیلئے وقف کئے رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پونے آٹھ سو سال کے بعد بھی حضرت بابا فرید ؒ کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔آپ نا صرف اپنے دور کے عظیم صوفی ،عالم با عمل اور مبلغ ہیں بلکہ آپ کو پنجابی میں صوفیانہ شاعری کے بانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بابا فرید کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اکثر شعر جنہیں اشلوک کہاجاتا ہے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر یا احادیث کے تراجم ہیں ۔آپ کی شاعری دنیا کی بے ثباتی، ہجر و فراق کی کیفیت قرآن مجید کی سچی تعلیم اور اخلاقی قدروں کی پہچان کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ
رُکھی سُکھی کھاء فریدا ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
اے فرید!تجھے جو روکھی سوکھی روٹی میسر آتی ہے اسے کھا اور اوپر سے ٹھنڈا پانی پی کر گزاراکر تجھے دوسروں کی چپڑی روٹی دیکھ کر اپنے جی کو نہیں ترسانا چاہئیے تو اس روکھی سوکھی پر قناعت کرے گا تو ساری عمر سکھی رہے گا اور دوسروں کی طرف دیکھ کر چپڑی روٹیوں کا لالچ کرے گا تو یہ لالچ تجھے ساری زندگی دکھی رکھے گی۔
فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کوئ
جیو ندیاں پیراں تلے ، مویاں اُپر ہوئ
اے فرید! مٹی کو برا نہیں کہنا چاہئے اس دنیا میں مٹی جیسی اور کوئی چیز نہیں یہ اسی مٹی کا وصف ہے کہ انسان کے جیتے جی وہ اس کے پیروں تلے ہوتی ہے مگر مسلسل پامالی ہونے کے باوجود کوئی شکایت نہیں کرتی اور جب انسان مر جاتا ہے تو یہی مٹی اس کے اوپر آکر اس کی قبر میں اس کے حال کی پردہ پوشی کر لیتی ہے ۔یعنی کہ ایک شعر میں کتنی بڑی حقیقت آشکارہ کی گئی ہے دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہے۔ بابا فریدؒ لوگوں کو دینی تعلیم وتبلیغ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اشلوکوں (شاعری) میں اس زمانے کے عام لوگوں کی زندگی محفوظ کررہے تھے۔
فرید اروٹی میری کاٹھ دی لاون میری بُکھ
جھناں کھاہدی چو پڑی گھنے سہن گے دُکھ
اب بابا فرید ؒ کے کلام کو اس وقت کے لوگوں کی زندگی کے پس منظر میں دیکھیں تو " روٹی میری کاٹھ دی" رمز ہے۔ نچلے طبقے کے حالات کی جونہایت مشکل سے ، سخت محنت ومشقت سے کمائی گئی روٹی بھوک کے سالن کے ساتھ کھاتے ہیں ۔ اگر یہ بات بابا فریدؒ کی زندگی سے متعلق لکھی جانے والی پہلی کتاب سیر الاولیاءمیں حضرت نظام الدین اولیاءنے نہ کہ ہوتی تو پھر" کاٹھ کی روٹی " کامطلب صرف وہی روٹی رہ جاتی جسے محکمہ اوقاف نے بابا فریدؒ کی ذات سے منسوب کرکے ایک فریم میں سجا کر رکھاہوا ہے اور یہ مشہور کر رکھا ہے کہ بابا جی نے اس روٹی کو گلے میں لٹکا رکھا تھا، جب بھوک لگتی تو اسے چبا لیتے تھے اور یہ بات ایک ایسے عظیم المرتبت بزرگ بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ کے بارے میں مشہو ر کی گئی ، جنہوں نے کہا کہ روٹی دین کا چھٹار کن ہے۔ اس اشلوک میں صر ف " کاٹھ کی روٹی" ہی رمز نہیں بلکہ" چوپڑی" بھی ایک رمز ہے۔” چوپڑی“یعنی گھی سے چُپڑی ہوئی روٹی ، اشارہ ہے اس طبقے کی طرف جو دوسروں کی محنت کارس چوس کر اپنی زندگی میں آسائشیں پیدا کرتے ہیں ۔ ایک طبقے کی چُپڑی ہوئی روٹی یعنی عیش وعشرت دوسرے طبقے کی " کاٹھ کی روٹی" یعنی غربت سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس اشلوک کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ دوسروں کی محنت کے بل بوتے پر اپنی زندگی کو پُر آسائش کئے پھرتے ہیں وہ آگے جا کر بہت دُکھ اُٹھائیں گے ۔ بابا فریدؒ ہمیشہ غربت کی زندگی بسر کرنے والے طبقے کے ہمدرد و مدد گار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابا فریدؒ نے عربی ، فارسی کے عالم ہونے کے باوجود اپنی شاعری کیلئے عام لوگوں کی زبان " پنجابی"کو ذریعہ اظہار بنایا۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مزیدخبریں