قارئین! پچھلے کئی دنوں سے امریکہ اور شمالی کوریا کے انسان کو تباہی کے آخری کنارے پر پہنچانے کے خون آلود ایٹمی بیانات نظر سے گزرے شدید دکھ ہوا ہے جبکہ انسانی زندگی کی تاریخ بہت مختصر ہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوق ”انسان“ کو خلق فرمایا اسے اپنا خلیفہ بنایا اور اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ٹھہرا دیا۔ مطلوب و مقصود یہ تھا کہ وہ زمین پر نہ صرف خود امن سے رہے گا بلکہ دوسروں کو بھی امان سے رہنے دے گا۔ اپنے اعلیٰ اخلاقی ضوابط و اقدار کی تشکیل و تکمیل اور عبادت دریافت سے وقت گزارے گا اور یوں رضائے الٰہی کے عین مطابق اسے اپنے وجود و شہود کا جواز پیش کرے گا مگر ہوا یہ کہ اس نے بزعم خود‘ خود کو عقل کُل تسلیم کرلیا۔ خلیفتہ الارض کیا بنا کہ زمین پر فتنہ و فساد پھیلانے کی مکمل چھوٹ حاصل کرلی نتیجہ یہ نکلا وہ تمام تر احکامات و احسانات ربی کو یہ اندازدگر برتنے لگا یہاں تک کہ سر پر بالوں برابر جو نعمتیں اسے عطا کی گئیں اس پر سر تشکر جھکانے کے بجائے سرے سے ان کے وجود ہی سے مُنکر ہوگیا دل میں زبردستی طے کرلیا کہ یہ سب کچھ اس کا حق تھا بلکہ حق ہے۔ اس نے زندگی کی ابتدا قتل سے کی جو ابھی تک جاری و ساری ہے‘ زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ جب روحانی و ذہنی انتشار نقطہ عروج پر پہنچا تو شور مچا کر نیکیوں اور نیک جذبوں کے محض دن منانے پر اتر آیا۔
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
قتل و غارت‘ بدی‘ بدنیتی اور بے حسی جب شمار و اطوار ہوئی تو محبتیں اور شفقتیں کہانیاں ہوگئیں‘ ایک دوسرے کو سکون اور خوشی پہنچانے کا تصور ناپید ہوگیا‘ آپس کے رشتے علاقے ختم ہوئے‘ انسان‘ انسان کیلئے گِدھ بن گیا‘ ایک دوسرے پر روحانی‘ جذباتی‘ نفتسیاتی اور جسمانی تشدد کی وہ انتہا کی گئی کہ مظلوم نے ہوش و حواس کھو دیئے۔ یوں زمین کی پشت پر پاگل خانوں‘ عقوبت خانوں اور جیل خانوں کے سرطان ابھر پڑے‘ حلال حرام کی تمیز ختم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست عطا کردہ پاک روزیاں تمام ہوئیں‘ خوراک لذت حلال سے عاری ہوگئی جو مرضی کھالو جسمانی‘ اخلاقی اور روحانی طاقت عنقا ہے۔ جھوٹ سچ کی طرح ناگزیر ہوگیا ہے ایسے تیرہ وتیر حالات آج سے چودہ سو سال پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ مسلمانوں کی خوش بختی کہ ان کو راہ ہدایت و مستقیم دکھانے کیلئے وجہ کائنات حضور پرنور معبوث ہوئے‘ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے‘ سات آسمانوں کے پرے سے چمکتی ہوئی کتاب برحق اُتری مگر ہم نے کیا کیا؟ اسے غلاف سے نکال کر چند لمحوں کو آنکھوں سے لگایا‘ بوسہ دیا اور طاقچے پر رکھ دیا۔ یہ نہ سوچا کہ قرآن حکیم صرف حکمت کے معنوں ہی میں حکیم نہیں طب کے معنوں میں بھی ایک کُلی ڈاکٹر ہے جس کے پاس ہماری ہر بیماری کی شفاءموجود ہے اور یہ کہ جس طرح ہم کسی ڈاکٹر کے ساتھ اپنی بیماری محض Discuss کرکے صحت یاب نہیں ہوجاتے یا نہیں ہوسکتے یا نسخہ لکھو ا کر سنبھال کر رکھ لینے کے بعد ٹھیک نہیں ہوجاتے بلکہ ہمیں عملی طور پر دوائی استعمال کرنا پڑتی ہے اسی طرح اپنی کتاب روش کے لفظ لفظ پر عمل پیرا ہونے ہی میں ہماری روحانی شفاءممکن ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ محض اور صرف اس نسخہ کیمیا و شفاءسے روگردانی کی وجہ سے آج ہم دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ خود کو دوسرے ممالک کی کرپشن کا حوالہ دے کر اپنی کرپشن کا جواز ڈھونڈنا سب سے بڑی کرپشن ہے۔ آج ہمارا دشمن اندرون ملک ہماری تمام تر کرپشن اور اخلاقی کمزوریوں اور آپس میں نفاق کو جواز بنا کر الزام و دشنام کی سطح سے اتر کر ایٹمی دھماکوں تک آپہنچا ہے۔ پاکستانیوں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ بالواسطہ عذاب و آزمائش ہم پر کیوں مسلط کی گئی ہے؟ مجموعی طور پر مسلمانوں سے کیا خطا ہوئی ہے کہ کرہ¿ ارض پر جہاں جہاں وہ بستے ہیں خاک و خون میں نہائے ہوئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں نے کتاب روشن کی تعلیمات‘ حضور پرنور کے ارشادات اور ایک لاکھ پیغمبروں کے پیغامات عالیہ کو عملی طور پر پس پشت ڈال کر ایسے کاری گناہ کمالئے ہیں جن کی بخشش کی کوئی صورت نظر نہیں آتی؟ .... ہم سمجھتے ہیں قارئین
جس طرح زمین کی تشنگی ابر کرم برسنے کا سبب بنتی ہے اسی طرح زمین کی پشت پر بھی گناہوں، خطاﺅں کا بوجھ بڑھنے لگا تو آسمان سے درعذاب کھلنے کے اسباب بھی ازخود پیدا ہونے لگتے ہیں‘ چشم تصور سے نہیں بلکہ کھلی آنکھوں سے اپنے ملک خداداد میں دیکھئے کیا کیا نہیں ہوتا؟ پولیس کے مذبح خانے دیکھئے جہاں کے ظالم و تشدد کا تصور محال ہے‘ عریاں فلمیں، بزور شمشیر رشوت، سفارش، اغواءبرائے تاوان، جیل خانوں میں قیدی عورتوں اور معصوم بچوں پر اندھا تشدد، بردہ فروشی، زہر کی گولیاں بلکہ موت بیچنے والے منشیات فروش، بڑے بڑے قرضے ہڑپ کرکے بڑی بڑی توندیں پالنے والے امراءغریبوں کی فاقہ کشی کون کون سا جرم اور تشدد ہے جو یہاں نہیں ہورہے؟ یہ سب کچھ ایٹم آگ سے کم نہیں اس پر بھی یہ مان کہ ہم مسلمان ہیں اپنے عظیم آباو¿اجداد کے کارناموں کی محض جگالی کرلینے سے رگ وپے میں غیرت نہیں اُترتی عملی طور پر مومن بن جانے کے بعد وہ معجزات اور کرامات ممکن ہوسکتی ہیں جو ہماری تاریخ ہے ہمارا ورثہ عظیم ہے۔ نوجوان نسل کو ڈش، لچر فلموں اور ہندو¿انہ کلچر سے بچا لیجئے‘ اقبال کے افکار‘ قائد کے اقوال اور تمام بزرگان دین کے پاکیزہ فکر وعمل کو حرزجاں بنالینے کےلئے بلکہ اُن پرعمل پیرا ہونے کےلئے زور دیں اُنہیں دو قومی نظریئے کی حفاظت اور بقاءکےلئے جان کی بازی لگا دینے کےلئے تیار کیجئے‘ ہم مسلمانوں کا مقصد حیات مغرب کی اخلاق باختہ دنیا سے بالکل الگ ہے اُن کی ایٹمی جنگ اُن کی ہی تباہی کا سبب بنے گی‘ ہمیں انشاءاللہ اللہ تعالی کے عطاکردہ پاکیزہ فرائض کی تکمیل کےلئے زندہ رہنا ہے‘ ہمارا پاک مذہب ابھی دنیا پر اُترنے والا پہلا اور آخری مذہب ہے جس تک کسی بھی قسم کی تباہی نہیں پہنچ سکتی۔ ہم نے اُس کی تکمیل و بقاءکےلئے دنیا سے ہر ظالم اور بدی‘ برُائی کو مٹانا ہے‘ آگ‘ ایٹم اور خون کی ہولی کھیلنے والی کافر قوموں سے الگ تھلگ اپنی ایک الگ پرامن مسلم دنیا بسانی ہے جو پوری دنیا کےلئے قابل رشک ہو۔