آدمی مسافر ہے‘ آتا ہے‘ جاتا ہے....

کلبھوشن یادیو نے گرفتاری کے بعد اپنے خطرناک منصوبے کے چند مندرجات سے آگاہ کیا تھا جس میں واضح طور پر بلوچستان کو ٹارگٹ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے جب چائنہ سے سی پیک کے حوالے سے منصوبے پر بات چیت کی تھی اور 2001ءمیں بھی جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ بلوچستان کی سرزمین میں خزانے مدفن ہیں۔ اسی زمانے میں ریکوڈک منصوبے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی گئی تھی۔ بلوچستان بہت عرصے تک نظرانداز رہا ہے لیکن جونہی چائنہ اور کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نظر میں یہ علاقہ آیا ہے تو پاکستانی حکومت کو ادراک ہوا کہ بلوچستان چیٹل بنجر پہاڑوں میدانوں کا مرکز نہیں بلکہ اس کا دامن معدنیات‘ قیمتی پتھروں اور قیمتی آبی حیات سے لبریز ہے لیکن حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے آج تک پاکستان ان خزانوں تک رسائی نہ حاصل کر سکا۔ چین نے بلوچستان کی قیمت کا اندازہ لگایا اور سی پیک منصوبہ عمل میں آیا۔ پاکستان کو تو اپنے خزانوں‘ وسائل اور نعمتوں کا علم نہیں لیکن بھارت کی عقابی نگاہوں نے اسے بھانپ لیا۔ آج سے تین عشرے پہلے کہا جاتا تھا کہ بلوچستان میں سوئی گیس کے اس قدر ذخائر ہیں کہ پاکستان اگر گیس دن رات بھی استعمال کرے تو ڈیڑھ سو سال تک گیس وافر مقدار میں موجود رہے گی مگر پھر یہ ہوا کہ بلوچستان میں تواتر سے مسلسل 14 سال گیس پائپ لائن توڑی جاتی رہیں‘ گیس نکلنے کے مقامات کو اڑایا جاتا رہا۔ ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس سے گیس کے ذخائر کو تباہ و برباد کیا جا سکتا تھا اور اب چودہ سالوں میں جہاں مفت جیسی ملنے والی گیس مہنگی ترین ہوگئی ہے وہاں گیس کے ذخائر گھٹ کر برائے نام رہ گئے ہیں۔ آج پاکستان میں گیس کی قلت ہے اور یہاں باقاعدہ بجلی کی طرح گیس کی بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ بلوچستان میں گیس‘ تیل‘ معدنیات وغیرہ کے جو خزانے ہیں قوم آج تک ان سے مستفید نہیں ہو سکی ہے۔ البتہ نقصانات کی طویل فہرست ہے۔ اگر صرف بلوچستان کے وسائل کو بروئے کار لایا جاتا تو پاکستان میں لگ بھگ چھ لاکھ نوجوانوں کو روزگار میسر آتا اور پاکستان میں خوشحالی ترقی کامیابی کا ایک سنہرا باب کھلتا۔ پاکستان کی وسیع و عریض زمین بے آب وگیا ہ پڑی ہے۔ پنجاب جیسے سرسبز زرعی علاقے سے کبھی فیض نہیں اٹھایا گیا۔ سب سے مہنگا پھل اور سبزی لاہور میں فروخت ہوتی ہے جو کہ خود زرعی علاقہ ہے۔ خیبر پختونخواہ کا یہ حال ہے کہ اس کے سرسبز‘ حسین و جمیل‘ زرخیز اور دلکش علاقے جنگل بنے ہوئے ہیں‘ مری کے جنگلات سے جتنے درخت کاٹ کر بیچے گئے ہیں ان کا حساب لگانا بھی مشکل ہے۔ سندھ میں صورتحال یہ ہے کہ وہاں ڈاکو اور بھتہ راج ہے جبکہ گلگت‘ بلتستان تو ویرانہ لگتا ہے۔ آزاد بلوچستان کا شوشہ بھارت کی ذہنی اختراع ہے۔ اسے سی پیک کسی طرح سے برداشت نہیں ہورہا۔ سوئٹزرلینڈ جیسے ملک میں اس حوالے سے منظم مہم چلائی جارہی ہے جبکہ سندھ میں بھی بار بار سندھ کو توڑنے اور الگ کرنے کی زہریلی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی انڈیا نے علیحدگی پسندی کی تحریک چلانے کی کوشش کی تھی کے پی کے سے بھی اسفند یار اور ایسے ہی عناصر کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ بالخصوص محمود اچکزئی نے کئی مرتبہ ایسی باتیں کیں جو غداری کے زمرے میں آتی ہیں۔ الطاف حسین ہوں یا آصف زرداری‘ فاروق ستار ہوں یا مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ہوں یا محمود اچکزئی‘ نوازشریف ہوں یا شہبازشریف یا عمران خان.... سبھی کی شناخت پاکستان کے دم سے ہے۔ سبھی نے اس مادرگیتی سے عزت، شہرت دولت حاصل کی ہے اور کچھ نے تو پاکستان کو اتنا لوٹا ہے کہ قارون کے خزانوں کو بھی مات دیدی ہے، سچ پوچھیئے تو اس وطن سے ہر شخص نے بقدرحبہ حصہ لیا ہے اور چند ہزار نے تو اس واقعات سے بڑھ کر لوٹا کھسوٹا ہے لیکن اس ملک کی مٹی کو بیچنے کی اجازت ہم کسی کو نہیں دے سکتے۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے اپنے خون پسینے، جانوں اور املاک کی قربانی دے کر یہ ارض وطن حاصل کیا ہے۔ اس لئے ابھی ہم زندہ ہیں اور اس کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ہم کسی کو اپنے اقتدار کی خاطر وطن عزیز کے حصے بخرے کرنے کی جرا¿ت کرنے نہیں دے سکتے۔ اگر حکمران قابل یا اہل ہوتے تو نایاب سرزمین یوں پامال نہ ہوتی۔پاکستان گزشتہ 35سالوں میں نہیں بدلا تو اب چند ماہ میں کونسا انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ایک میچور سیاستدان ہونے کے ناطے بڑا پن یہ ہوتا کہ میاں نواز شریف استعفیٰ دیکر کہتے کہ اب میرا احتساب کیجئے۔ اگر شریف برادران نے کچھ نہیں کیا تو دونوں کو مستعفی ہو کر عدالتوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے تھا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آتا۔ اگر دونوں نے کرپشن نہیں کی۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ میں چند افراد کا قتل عام نہیں کیا تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔ اس دنیا میں جتنی بھی دولت، طاقت اور حشمت ہو لیکن ان سب کے ا وپر بھی ایک حکمت والا بیٹھا ہے جو پانسہ پلٹ دیتا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی حکمران تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے ورنہ اُن سے کبھی غلطیاں نہ ہوں۔ ہم آج بھی چنگیز خان دور میں زندہ ہیں اور مغلیہ تاریخ آج بھی زندہ سلامت ہے جب آخری تاجدار ظفر کے سامنے اُس کے دو بیٹوں کے سرطشت میں رکھ کر پیش کئے گئے تھے۔ جب بادشاہ جنگل میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جب بادشاہ زندانوں میں محبوس ہوئے جب شہزادوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں جب بھائی بھائی کا دشمن بن گیا۔ اس تخت و تاج نے خون کے رشتوں کو انگاروں میں بدل دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تخت، دولت اور طاقت کے نشے نے انسان کو حیوان بنا دیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے حکمران ہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھتے رہے اور اپنی مدتیں میعادیں باعزت پوری کرتے رہے۔ میاں نواز شریف بذات خود شاید ایسی خُو نہیں رکھتے لیکن جن بدخواہوں کے مشوروں پر چلتے رہے ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کو کبھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ نواز شریف اپنی اصل عمر سے واقف ہیں۔ زندگی بہت تھوڑی باقی ہے اسے عزت سے گزارنا چاہیے۔ لوگ اپنے عہدوں مراعات کےلئے غلط مشورے دینگے۔ اب آپ آ ہی گئے ہیں تو حوصلے اور سچائی سے عدالتوں میں آئیے۔ کسی کے پھینکے ہوئے جال میں شکار بننے سے بچیئے۔ ایک بہی خواہ کے طور پر یہی مشورہ ہے کہ فانی زندگی میں کوئی کام کر جانیئے ورنہ اس زندگی کے سفر میں تو لوگ آتے جاتے ہی رہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن