1۔ پاک و ہند کو آزاد ہوئے ستر برس ہوچکے ہیں اس الیکٹرانک ایج میں جبکہ انسان ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے یہ کچھ کم عرصہ نہیں ہوتا انسانوں کی طرح قوموں کی زندگی میں بھی جاں سوز مراحل آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ اصل المیہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب مسائل مصائب میں ڈھل جاتے ہیں ۔ ناکامیاں اور نا امیدی مستقل ڈیرے ڈال لیتی ہیں اور دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ۔کتاب ہدایت میں لکھا ہے کہ خدا اس وقت تک قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک افراد کو اپنی حالت زار بدلنے کا ادراک نہیں ہوتا۔ لہذا ضروری ہے کہ لوگ اپنے اندر جھانکیں گرد و پیش کا جائزہ لیں اور ہر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
2۔ آج سے کئی برس پہلے دیار غیر میں یوم آزادی کے موقع پر پاکستانیوں کے ایک بڑے مجمع کو مخاطب ہوتے ہوئے جب میں نے کہا یوم آزادی خوشی کے علاوہ تجزیہ و احتساب کا بھی دن ہے۔ آج جب شہدا کی روحیں وطن عزیز کا طواف کرتے ہوئے خوش ہوتی ہونگی تو ہمیں بھی خوشی منانی چاہیے۔ اگر وہ مضطرب اور مضمحل ہیں تو پھر ہمیں غور کرنا چاہیے کہیں ہم سے کوئی بھول تو نہیں ہوئی۔ ہم منزل سے دور تو نہیں ہوگئے! اس پر شریف برادران کے نفس ناطقہ بلکہ نفس مطمن¿ہ‘ بڑے جز بز ہوئے ان کے خیال میں میں نے حکومت مخالف تقریر کی تھی۔
2۔ ایک الگ ملک کا مطالبہ محض معاشی خوشحالی کے لیے نہیں تھا اس کی اساس ترتیب پر تھی۔ ہندو ازم اور اسلام کے فلسفے میں بُعدالمشرقین تھا یہ ریل کی ان پٹریوں کی طرح تھے جن کا کبھی ملاپ نہیں ہوتا۔ متناسب نمائندگی کا جائز مطالبہ جو اہر لعل نہرو نے اس لیے مسترد کردیا کہ وہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپ رہا تھا۔
3۔ گو ہندوستان دشمن ملک ہے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ رکھے ہوئے ہے وطن عزیز کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ پاکستانی اس سے شدید نفرت کرتا ہے۔ باایں ہمہ تقابلی جائزہ ضرورت وقت ہے۔ ذرا سوچیں! اگر مودی کے یورپ میں محلات ہوتے۔ من موہن سنگھ کے سو ئس بنکوں میں اربوں روپے جمع ہوتے۔ واجپائی کی داشتہ کرنسی سمگلنگ میں ملوث ہوتی۔ ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوتا مرار جی ڈیسائی چھینک آنے پر لندن علاج کی غرض سے جاتا۔ راجیو گاندھی ہر سال شادی کا ڈھونگ رچاتا۔ لال بہادر شاستری سوئمنگ پول میں کسی کرسٹائین کیلر کی ٹانگ کھینچتا۔ سونیا گاندھی چالیس کورسز کا ڈنر کرتی ۔ اس کی خوش خوراکی کے قصے نہ صرف زبان زد خاص و عام ہوتے بلکہ ایک لطیفے کی شکل اختیار کرجاتے تو ہندو ستانی ووٹر ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے؟ بالفرض کوئی وزیراعظم سزا سے بچنے کے لیے ملک کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ کرواتا تو کیا ہوتا؟ صرف یہ ہی نہیں بلکہ جج کو ہدایت کرتا کہ اس کے مخالف کو کم ازکم اتنی سزا دی جائے تو کیسے نتائج مرتب ہوتے؟ ملک میں بنی ہوئی گاڑی ماروتی کی جگہ ان گنتBMWS اپنے لیے بچوں کے واسطے اور پھر ان کی اولاد کے لیے درآمد کرتا تو قوم اسے کس نظر سے دیکھتی دورہ چاہے پورب یا پچھم کا ہوتا ہر دفعہ پڑاﺅ لندن میں ہوتا تو کتنا لطف آتا بالفرض ایڈوانی ہندوستانی حفیہ ایجنسی را کے چیف سے الیکشن کے لیے خطیر رقم لیتا اور سربراہ اس کا برملا اعتراف کرتا تو عدالتیں اس کا کیا حشر کرتیں؟
4۔ وطن عزیز میں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں ہوتا کیا قانون میں کچھ سقم ہے عدالتیں مصلحت پسند ہیں مجرم کی قوت خرید بہت زیادہ ہے عام قانونی داﺅ پیچ اور ہیرا پھیریوں کا ماہر۔ وکلا کی پوری پلٹن جو قانونی موشگافیوں کی ماہر ہے یہ لوگ ہر بات میں مین میخ اور کیڑے مکوڑے نکالنے کا فن جانتے ہیں ۔ مقدمے کو اس قدر طوالت دو کہ قانون تھک کر نڈھال ہو جائے منصف اونگھنے لگے اور عوام اسے قصہ پارینہ سمجھنے لگیں یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن اصل وجہ کچھ اور ہے عوام بے حس ہیں بے شعور ہیں کم عقل ہیں جو کھرے اور کھوٹے کی پہچان نہیں رکھتے جو بھیڑ کی کھال میں چھپے ہوئے بھیڑیوں کی شناخت نہیں کرپاتے۔ اپنے ازلی دشمنوں اور قاتلوں کو گلے لگا لیتے ہیں شاہان وقت کا گریبان نہیں پکڑتے ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ کوئی رکوع میں ہے خانقاہ کے آگے۔ کوئی سجود میں ہے کج کلاہ کے آگے۔ کس قدر بے حسی ہے ، بے بسی ہے کتنا ظلم عظیم ہے۔ جس کا ہر روز روزِ عید ہوتا ہے اور ہر شب شبِ برا¿ت‘ ہزاروں کے مجمعے میں جالب کے شعر پڑھتا ہے۔ وہ جالب جو افلاس کا مارا تھا‘ غربت اور بے چارگی کا استعارہ تھا‘ جس کی ہر صبح شام سے بدتر تھی اور شام کی کبھی صبح نہ ہوتی تھی۔” دیپ جس کے محلات میں ہی جلیں“۔ ہر طرف تالیاں بجتی ہیں۔ تعریف اور توصیف کے ڈونگرے برستے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ میاں تم رہتے کہاں ہو۔ تمہارے ہاں کتنے ہزار دیئے روشن ہوتے ہیں۔ تمہارے لباس کس ملک کی کس دکان میں سلتے ہیں۔
”اگر پچھلی مرتبہ میری کلائی نہ مروڑی جاتی تو پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن جاتا۔ اگر اس مرتبہ سازش کے تحت مجھے گھر نہ بھیجا جاتا تو ہر گھر میں من و سلویٰ برستا‘ کوئی شخص بے روزگار نہ رہتا۔ یہ جو لوڈشیڈنگ ختم ہوئی ہے وہ میں نے کی ہے۔ میرا مرنا جینا عوام کے ساتھ ہے۔ میں تم میں سے ہوں،،۔ چار سو نعرہ تکبیر بلند ہوتا ہے۔ چارسو لوگ رقص کرنے لگتے ہیں۔ کسی کو یاد نہیں رہتا کہ پچھلی مرتبہ جب حضرت رخصت ہوئے تھے تو پاکستان کا زرمبادلہ ایک بلین ڈالر رہ گیا تھا۔ ملک ناکام ریاست ڈیکلیئر ہونے والا تھا۔ ان کے میر منشی نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ورغلا‘ بہلا اور پھسلا کر اور زیادہ منافع کا لالچ دے کر جو چھ بلین ڈالر اکٹھے کئے تھے وہ بھی راتوں رات ضبط کر لئے گئے تھے۔ باقی رہی لوڈشیڈنگ تو وہ ایک دن پہلے 5 ہزار میگاواٹ تھی۔ گردشی قرضہ 900 ارب تک پہنچ چکا تھا۔ گرمی کے ستائے ہوئے لوگ واپڈا کے دفاتر پر حملے کر رہے تھے۔ سڑکوں پر ٹائر جلا رہے تھے۔ خطِ غربت تحت الثریٰ کی طرف سرک رہا تھا۔
اس افراتفری کے ماحول میں ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ایک حضرت جنہیں سیاست کا پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے‘ فرماتے ہیں۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس بیان پر ہنسا جائے‘ رویا جائے یا دونوں کیفیتوں سے بیک وقت گزرا جائے۔ ان کی کارکردگی پر ایک سرمایہ دار نے کتاب لکھی ہے۔ وہ ان کا زخم خوردہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کی حیات کا ہر لمحہ ایک مکمل کہانی ہے اور ہر صفحہ رنگین داستان۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس نے انہیں ایک ٹکٹ فروش سے ٹین فیصد بنایا پھر دیکھتے ہی دیکھتے سنٹ پرسنٹ ہو گئے۔ آج کل ان کا شمار ملک کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ ویسے بڑے دھیمے مزاج کے فراغت پسند انسان ہیں۔ یہ جب یورپ کی ٹھنڈی ہوا¶ں میں ”اورنج جوس“ پی رہے ہوتے ہیں تو ان کا برخوردار اپنی توتلی زبان اور نیم پختہ اردو میں بوڑھے انکلو¶ں کے جلو میں تقریر کے جوہر دکھا رہا ہوتا ہے۔ آج کل خان بابا پہاڑوں کی سیر کر رہا ہے۔ اس کی بربادیوں کے مشورے آسمانوں پر نہیں بلکہ زمین پر ہو رہے ہیں۔ کئی گلابی‘ عنابی اور سرمئی جال بچھ چکے ہیں۔ خان نامور کھلاڑی ہے۔ رنگین جال تو شاید توڑ دے لیکن قانون کے پھندے سے بچ نکلنا کاردارد ہو گا۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا اس قوم کا باوہ ہنوز نیم رس ہے۔ ذہن نارسا ہے۔ انہیں کھوٹے کھرے کی تمیز نہیں ہے۔ اجتماعی شعور ابھی تک بیدار نہیں ہو پایا۔ یہ جمہوریت کے اس گھوڑے پر سوار ہیں جس کے متعلق کہا گیا ہے .... ع
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں