میڈیا اور بیگم کلثوم نواز

دونوں دینی جماعتوں کو ملنے والے 13ہزار ووٹ مادرپدرآزاد سماج کے سہانے سپنے دیکھنے والوں کے لئے ڈراو¿نا خواب بن چکے ہیں کیونکہ پاکستان کی اساس اور بنیاد دو قومی نظریہ ان کے سینے پر سانپ بن کر لوٹتا ہے اس گم کردہ راہ ٹولے کی جسارتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ وہ شعائر اسلام اور مقدس اسلامی علامتوں کا بھی کُھلم کُھلا مذاق اڑا رہے ہیں، ضمنی انتخاب میں کسی ممنوعہ تنظیم نے حصہ نہیں لیا لیکن بڑی ڈھٹائی اور دھڑلے سے ننگا جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ لاہور کا ضمنی انتخاب ہمہ پہلو انتخابی معرکہ تھا جس کے پاکستان کی انتخابی سیاست پر ہمہ گیر اور دور رس نتائج مرتب ہورہے ہیں۔
شیخ الحدیث خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک یا رسول اللہ اور حافظ سعید کے جان فروش وابستگان کی ملی مسلم لیگ کا ضمنی انتخاب میں حصہ لینا نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیالوں پر آسمانی بجلی بن کر گرا ہے، عالم یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے سے متعلق سوال پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچے گا جس سے حالات عجیب رخ اختیارکر سکتے ہیں۔
جناب نواز شریف کو بخوبی علم ہے کہ ان کی بیگم کے مقابل کسی کالعدم تنظیم کا کوئی امیدوار مقابلے میں نہیں تھا لیکن چونکہ اس طرح کا بیانیہ اس وقت ان کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے اس لئے وہ بھی حالات کے عجیب رخ اختیار کرنے کا کہہ کر سنسنی پھیلا رہے ہیں۔ انگریزی اخبار کے اداریہ نویس کو بالکل علم نہیں ہوگا کہ لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہندو ووٹروں کی کل تعداد 300 ہے اور انہوں نے اجتماعی طور پر ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دئیے
ایک مندر کا پروہت سارا دن اپنی نگرانی میں ووٹ ڈلواتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ کسی اخبار کے اداریہ نویس کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ کسی سیاسی تنظم یا گروپ کو انتہا پسند قرار دے سکے یہاں طرفہ تماشا یہ ہے اعلٰی ترین آئینی عدالت کے فیصلوں کو بازیچہ اطفال بنادیا گیا ہے، دوسرے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چند کور چشم اپنی "گونو" عدالتیں لگائے بیٹھے ہیں۔ این اے 120 کے انتخابی نتائج میں دائیں بازو کی دو نئی مذہبی جماعتوں کاگیارہ فیصد'13 ہزار ووٹ لے کرقومی سطح پر ابھرکر مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونا ریاست اور معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ کیوں لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ کیا دائیں بازو سے تعلق کوئی جرم ہے۔ عام انتخابات میں وجود نہ رکھنے والی یہ جماعتیں دومختلف انتہا پسندانہ نظریات کی حامل ہیں۔
لبیک یارسول اللہ بریلوی مکتبہ فکررکھنے والاگروہ ممتازقادری کو قتل کے جرم میں سزا دینے پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف مہم چلارہا تھا۔ پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ انتہا پسندانہ نظریات کی صحیح تعریف کیا ہے جیسا کہ اداریہ نویس خود لکھتے ہیں کہ لبیک یا رسول اللہ تحریک بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے' اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کے عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے پیروکاروں کی تنظیم ہے جن کا سیاسی وجود شاہ احمد نورانی کے انتقال کے بعد معدوم ہوتا جارہا تھا۔ تحریک یا رسول اللہ دراصل اپنے بکھرتے سیاسی وجود کو محفوظ رکھنے کی معصومانہ حکمت عملی کا حصہ ہے‘ جسے معزز اداریہ نویس کسی گہری سازش کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جبکہ جماعت الدعوة، فلاح انسانیت نیٹ ورک کے بطن سے جنم لینے والی ملی مسلم لیگ اور حافظ سعید کے عالمی نکتہ نظر کے پیروکارسرگرم تھے۔
یہاں پر اصل تکلیف حافظ سعید سے ہے جن کو بے جرم و خطا صرف بھارتی وزیراعظم مودی کی خوشنودی کیلئے نظربند رکھا ہوا ہے پاکستانی قوم کی غالب اکثریت حافظ سعید کو مودی کا قیدی سمجھتی ہے، جہاں تک حافظ سعید کے عالمی نقطہ نظر کا تعلق ہے وہ علاقائی ہے اور جنوبی ایشیا تک محدود ہے کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بلا تاخیر عمل درآمد کیا جائے یہی پاکستان کا ریاستی موقف ہے جسے گذشتہ شب ہماری مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بڑی شدومد سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہ قابل عمل نہیں رہیں اور یہ کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا مرکز و محور بھارت ہے حافظ سعید کا بھی یہی موقف ہے تو پھر انہیں قابل گردن زدنی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
ملی مسلم لیگ اگرچہ تکنیکی بنا پر انتخاب میں باضابطہ شرکت تونہ کرسکی لیکن اس جماعت کے امیدوار نے کھلم کھلا آزاد حیثیت میں مہم چلا ئی۔ الیکشن کمشن اس جماعت کے کالعدم گروہ سے تعلقات کی سرعام خلاف ورزی کا مذاق اڑتے دیکھتا رہا اور کچھ کرنے سے قاصر رہا۔ ملی مسلم لیگ کا فلاح انسانیت ٹرسٹ سے تعلق کیسے جرم قرار دیا جا سکتا ہے کہ انسانی خدمت کا یہ عظیم الشان ادارہ تمام قواعد وضوابط پر عمل درآمد کرکے پاکستان کے طول و عرض میں دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف کار ہے۔ قدرتی آفات کے جانگسل لمحات میں ان کی خدمات کا اعتراف صرف اپنوں ہی نہیں عالمی سطح پربیگانوں نے بھی کیا ہے۔ وائے افسوس کہ یہ خدمات روشن خیال اداریہ نویسوں کو دکھائی نہیں دیتیں جن کی اجمالی تفصیل کچھ یوں ہے۔
فلاح انسانیت فا¶نڈیشن وطن عزیز کا صف اوّل کانیک نام اور بڑا رفاہی ادارہ ہے جس کے زیر انتظام سارے ملک میں فلاح و بہبود کے سینکڑوں منصوبے چل رہے ہیں جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ فلاح انسانیت فا¶نڈیشن کے تحت کراچی سے چترال تک مختلف شہروں میں 8 ہسپتال کام کر رہے ہیں جن میں ماہانہ ساڑھے چار لاکھ مریضوں کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تھرپارکر (سندھ) جعفرآباد (بلوچستان) اور گلگت میں چار ہسپتال زیر تعمیر ہیں۔ ملک کے وہ چھوٹے بڑے شہر جن کے پسماندہ علاقوں میں صحت کی سہولیات ناپید ہیں ایسے علاقوں میں فلاح انسانیت فا¶نڈیشن کی 183 فری ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں جن میں سالانہ 15 لاکھ مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے ان ڈسپنسریوں میں روزمرہ کے لیبارٹری ٹیسٹ بھی کئے جاتے ہیں۔ نجی شعبے میں طبی سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن پاکستان کی سرفہرست فلاحی تنظیم ہے۔ پاکستان کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقے جن میں تھرپارکر، بلوچستان، آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں وہاں موبائل میڈیکل ٹیمیں سینئر ڈاکٹرز کے ہمراہ طبی سہولیات ضرورت مندوں کوگھروں کی دہلیز پر پہنچاتی ہیں جس میں لاکھوں روپے مالیت کی ادویات بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
گزشتہ سال فری میڈیکل کیمپوں پر 5 لاکھ سے زائد مریضوں کا چیک اپ کیا گیا۔ مختلف شہروں میں فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے 22 بلڈ بنک اور لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں اس کے علاوہ 23 ہزار بلڈ ڈونرز ہیں جو بوقت ضرورت خون کے عطیات دیتے ہیں۔
فلاح انسانیت فا¶نڈیشن کے زیر انتظام تھرپارکر اور بلوچستان میں پانی کی فراہمی کے لئے واٹر پروجیکٹس کا بہت بڑا اور منظم نظام موجود ہے جس کے تحت اب تک 4 ہزار کنوئیں، ہینڈ پمپ اور سولر واٹر پروجیکٹس لگائے جا چکے ہیں جن سے 6 لاکھ سے زائد آبادی پانی کی سہولت سے مستفید ہو رہی ہے۔ ایف آئی ایف نے تھرپارکر میں ایگریکلچر کے لئے زرعی سولر واٹر پروجیکٹس کا بھی آغاز کیا ہے جس سے تھریوںکو پینے کا پانی بھی میسر آتا ہے اور وہ اپنی کھیتی باڑی کر کے ذریعہ معاش بھی حاصل کر رہے ہیں۔ فلاح انسانیت فا¶نڈیشن کے پاس 64 ہزار تربیت یافتہ ریسکیو ورکزر ہیں جو کسی بھی قدرتی آفت اور حادثات میں بروقت پہنچ کر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔
2005 کا زلزلہ اور 2010 کا سیلاب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ شہر شہر ریسکیو ٹریننگ کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ لوگوں کو فرسٹ ایڈ، آگ بجھانے اور دیگر سیفٹی کی تربیت دے کر قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔ فلاح انسانیت فا¶نڈیشن کے تحت بیوگان اور یتیم بچوں کی کفالت کا بڑا مربوط نیٹ ورک ہے جس کے تحت ہزاروں بچوں اور بیوگان کی کفالت کی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں روزانہ ایک لاکھ افراد کےلئے سحر و افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے اسکے علاوہ مختلف شہروں میں سارا سال فری دسترخوان لگائے جاتے ہیں جہاں ہزاروں لوگ کھانا کھاتے ہیں۔
عیدین کے موقع پر غریب اور مساکین میں کروڑوں روپے مالیت کے ملبوسات، جوتے اور دیگر تحائف تقسیم کئے جاتے ہیں تاکہ یہ معاشرے سے کٹے ہوئے لوگ بھی دیگر مسلمانوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔یہ ناقابل معافی انتہا پسندانہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے اپنے تعصبات کے گنبدِ بے در میں بند اداریہ نویس نہایت کور چشمی سے مودی کے الزامات کی فہرست کو اداریہ بنا کر دہرائے جا رہے ہیں ملی مسلم لیگ ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت جو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت تمام قوانین پر عمل درآمد کرکے الیکشن کمشن میں رجسٹریشن کے مراحل سے گذر رہی ہے۔ملاحظہ فرمائیں کہ اداریہ نویس ان جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مستقبل کی ممکنہ مقبولیت سے پریشان ہوکر فرماتے ہیں کہ بنیاد پرستوں کی انتخابی مہم آئندہ عام انتخابات کےلئے نیک فال نہیں۔ (جاری)


ریاستی ادارے پاکستانی ریاست کے خلاف اسلحہ نہ اٹھانے والے عسکریت پسند گروہوں کو اگر نام نہاد مرکزی دھارے میں لانے کا تجربہ کرنے پر بضد ہیں تو پھر جمہوری اداروں پر لازم ہے کہ وہ سیاسی عمل میں ان کی شرکت کے قواعد کو واضح اور جمہوری بنائیں۔ عسکری گروہوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کا حالیہ خفیہ انداز ناقابل قبول ہے۔ ملی مسلم لیگ نے ضمنی انتخاب میں کچھ ایسے اندازمیں شرکت کی جیسے عمومی سیاسی جماعتوں پر لاگو ہونے والے ضابطوں کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ درحقیقت ملی مسلم لیگ اور اس طرح ابھرنے والے دیگر گروہوں پر خصوصی قواعد نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھئے کس خوبصورتی سے اللہ اور اس کے نام لیواو¿ں کے لئے خصوصی قوانین کی تشکیل کے مشورے دئے جارہے ہیں آغاز میں عوامی سطح پر دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہاءپسندی سے لاتعلقی اور آئینی جمہوری عمل کے ناقابل تنسیخ ہونے کا اعلان کیاجائے۔ریاستی ادارے تجربہ کےلئے سیاسی عمل کو مرکزی دھارے میں شمولیت کے غیرتصدیق شدہ اور غیرآزمودہ نظریہ کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی اجازت دینے کی صورت میں ریاست ایسے گروہوں کی مسلسل پڑتال کویقینی بنائے۔ لبیک یارسول اللہ اور ملی مسلم لیگ نے این اے 120میں مساجد کو انتخابی مہم کے مراکز کے طور پر استعمال کیا۔ الیکشن کمشن کو ایسی سرگرمیوں سے متعلق اپنے قواعد پر نظرثانی کرنی چاہئے اورمقامی سطح پر نفاذ قانون کے ذمہ داروں کی مساجد، مدارس اور سماجی بہبود کے مراکزکی مسلسل نگرانی کرنا ہوگی تاکہ پرتشدد نظریات اور انتہاءپسندی کے فروغ کو روکنا یقینی بنایا جائے۔ جمہوری عمل کا دروازہ کھلا ہے اورمتنوع سیاسی افکار کو گنجائش دے رہا ہے لیکن یہ آزادی ان گروہوں کونہ دی جائے جو اسے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، دستور اور جمہوریت کی تباہی کے لئے استعمال میںلائیں۔ عسکریت پسندی ترک کرنے پر آمادہ شدت پسندوں کے لئے واضح پالیسی کی ضرورت ہے لیکن جمہوری عمل میں خفیہ انداز میں ان کی گنجائش پیدا کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہوسکتا۔ عمرانی اور لسانی علوم کے استاد پروفیسر سلیم منصور خالد فلسفہ انتہاپسندی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فکری اور نظری اعتبار سے ہر نظریہ ہی انتہا پسندی پر استوار ہوتا ہے کہ وہ اپنی بنیاد پر پختہ یقین رکھتا اور دوسرے کو منفی نظر سے دیکھتا ہے۔ جس طرح کہ جمہوریت خود بھی، آمریت کو انتہا پسندی ہی سے دیکھتے ہوئے اس کی ہر خوبی کی نفی کردیتی ہے۔ علاقائی قوم پرست کی نظر میں دوسری قومیت رکھنے والاقابل گردن زدنی ہوتا ہے، کہ جس طرح بلوچستان میں بے نوا پنجابی مزدوروں کو صرف اس لئے بسوں سے اتار کر قتل کردیا گیا کہ وہ محض پنجابی تھے۔ اس مثال کو آپ پھیلاتے چلے جائیں تو آج ٹی وی پر منہ بھر بھر کے مذہبی لوگوں پر تبریٰ کرنے والے نام نہاد دانش ور بھی درحقیقت یک رخی انتہا پسندی کی دلدل میں لتھڑے نظرآتے ہیں، لیکن جادوئی میڈیا کے زور پر وہ روشن خیال کہلاتے ہیں اور ان کانشانہ بننے والے ذلت ونفرت کا شکار رجعت پسند قرار پاتے ہیں۔ اس طرح انتہا پسندی کا پورا فلسفہ ہی اضافیت کا مظہر ہے۔ یارو، یہ کیسی’ غیر انتہاپسندی‘ ہے کہ چند ملزموں کو پکڑنے یا مارنے کے نام پر لاکھوں انسانوں کو مار دیاجائے؟باقی جہاں تک مذکورہ دودینی پارٹیوں کا تعلق ہے تو یہ انتہاپسندی کے بجائے، عوامی میزان پر زیادہ ذمہ داری کے سانچے میں ڈھلنے کی راہ پر آئی ہیں۔ جنہیں نفرت کا نشانہ بنانے کے بجائے دیکھنا اور پرکھنا چاہئے۔ یہ کام عوام کرلیں گے اگر وہ انتہاپسند ایم کیوایم اور بلوچ قوم پرستوں کومنتخب کرکے، رفتہ رفتہ ، ان کے زہر کو نکال سکتے ہیں، تو یہاں بھی افراط و تفریط کے خاتمے کی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے وابستگان کی انتہاپسندی بلکہ ذہنی غلامی پرکبھی کسی نے غور کیا ہے۔ حرف آخر یہ کہ اگر محب وطن پاکستانی مودی کو خوش کرنے کیلئے انتہاپسند قرار پائیں گے اور ناموس رسالت کے مقدس علم بردار بلا جرم و خطا بلڈوز کئے جائیں گے تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ای پیپر دی نیشن