سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف لندن میں اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی تیسری سرجری مکمل ہونے کے بعد پیر کی صبح ملک واپس آگئے‘ انہوں نے پی آئی اے کی پرواز پی کے 786 کے ذریعے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے فلائی کرکے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسلام آباد لینڈ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق میاں نوازشریف کی واپسی کا فیصلہ لندن میں مسلسل دو روز تک جاری رہنے والی ملاقاتوں میں کیا گیا۔ ان ملاقاتوں کے دوران میاں نوازشریف نے اپنے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے خصوصی مشاورت کی جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف بھی نیویارک سے واپسی پر مشاورت کے اس عمل میں شریک ہوئے۔ لندن میں موجود وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار اور میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی مشاورت کے عمل میں حصہ لیا اور اس دوران ملکی سیاست اور شریف فیملی کیخلاف زیرسماعت ریفرنسوں میں انکی عدم پیشی کے ممکنہ نقصانات کا مفصل جائزہ لینے کے بعد شریف فیملی کے ملک واپس آکر ان ریفرنسوں کے دفاع کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلہ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اتوار کے روز وزیراعظم شاہد خاقان کے ہمراہ ملک واپس آگئے جبکہ میاں نوازشریف پیر کی صبح لندن سے اسلام آباد پہنچے۔ انہوں نے لندن ایئرپورٹ سے روانگی کے وقت میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی‘ کبھی عوام کا پیسہ نہیں کھایا۔ بات پانامہ کی تھی‘ سزا اقامہ پر کیوں دی گئی‘ یہ کیسا احتساب ہورہا ہے۔ انکے بقول فیصلہ بھی انہوں نے دیا‘ اپیل بھی انہی نے سنی اور نگران جج بھی وہی ہیں‘ یہ کیسا انصاف ہے۔ انہوں نے کہا‘ وہ لندن اپنی اہلیہ کی تیمارداری کیلئے آئے تھے اور ایسا ارادہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ یہیں بیٹھے رہیں گے اور واپس نہیں جائینگے۔ مریم نواز نے اس حوالے سے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ نوازشریف اپنی ذات کی نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کی جنگ لڑنے آرہے ہیں‘ انہیں احتساب نہیں‘ کسی اور چیز کا سامنا ہے۔
میاں نوازشریف اس وقت یقیناً ابتلا کے دور سے گزر رہے ہیں جو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ سے معزول اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوئے اور اب انہیں اور انکے اہل خانہ کو نیب کے ریفرنسوں کا سامنا ہے جبکہ وہ اپنی نااہلیت کی بنیاد پر پارٹی کی سربراہی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں جبکہ 2018ءکے انتخابات کا چیلنج بھی انہیں درپیش ہے‘ وہ ملک میں رہ کر اپنے خلاف ریفرنسوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے فعال سیاسی کردار کے ذریعے ہی اپنی اور اپنی پارٹی کی مستقبل کی سیاست محفوظ کر سکتے ہیں۔ اقتدار یقیناً کانٹوں کی سیج نہیں ہوتی اور اس میں بہرصورت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے جبکہ اقتدار میں رہ کر اپنا دامن پاک صاف رکھنا اپنی جگہ ایک آزمائش ہے۔ میاں نوازشریف اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں اقتدار کے بہت زیادہ مواقع ملے جس میں انکی وزارت اعلیٰ کے دو اور وزارت عظمیٰ کے تین ادوار شامل ہیں جبکہ انہیں اپنے اقتدار کے دورانیہ کی نسبت احتساب کے عمل کا بہت کم سامنا کرنا پڑا ہے۔ انکی سیاست کے حوالے سے انکے سیاسی مخالفین ہمیشہ اس امر کے شاکی رہے ہیں کہ انصاف کا ترازو ہمیشہ انکے حق میں جھکتا رہا ہے۔ انہوں نے جرنیلی آمریت کی چھتری کے نیچے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرکے جرنیلی آمریت کو چیلنج کرنے کا راستہ اختیار کیا تو وہ ایک مسلمہ قومی قائد کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آگئے اور پھر وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی پہچان بن گئے۔ انہوں نے جن سہولتوں کے ساتھ اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا اسکے پیش نظر انکے بارے میں یہ تصور قائم ہوگیا تھا کہ جان جوکھوں میں ڈال کر میدان عمل میں اترنا اور مزاحمت کی سیاست کرنا انکے بس کی بات نہیں ہے جو پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بعض دوسری جماعتوں کا خاصہ رہا ہے تاہم انہوں نے مشرف کے ہاتھوں 12 اکتوبر 1999ءکو معزول ہونے کے بعد جرنیلی آمریت کی مزاحمت کا فیصلہ کیا تو وہ ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے۔ انہیں مشرف کے دور اقتدار میں اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا تو انکی لیڈرشپ اور بھی مسلمہ ہوگئی۔ چنانچہ وہ مشرف ہی کے دور میں انکے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونیوالے این آر او کے باعث ملک واپس آئے تو قومی سیاست میں ان کا کردار تسلیم کیا جانے لگا اور وہ ایک فائٹر کے طور پر مشہور ہوگئے۔ اپنے اس سیاسی ویژن کی بنیاد پر ہی وہ 2013ءکے انتخابات میں بھرپور قومی مینڈیٹ کے ساتھ تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تاہم عمران خان اور انکے دوسرے سیاسی مخالفین نے انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا اور مختلف ایشوز کا سہارا لے کر انکی حکومت کیخلاف عوامی احتجاج اور دھرنا تحریکوں کا آغاز کردیا گیا تاہم وہ حکومت مخالف ہر تحریک میں سرخرو ہوتے رہے۔ گزشتہ سال پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو عمران خان کی پی ٹی آئی‘ پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی اور دوسری حکومت مخالف جماعتوں کو حکومت کیخلاف اودھم مچانے کا بھرپور موقع مل گیا جو بالآخر میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی اور اسمبلی رکنیت سے محرومی پر منتج ہوا۔ اس سیاست میں میاں نوازشریف نے اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کا تاثر دینے والی مزاحمت کی سیاست کا آغاز کیا اور فوج کے علاوہ عدلیہ پر بھی ملبہ ڈالنا شروع کردیا جبکہ اس سیاست میں انہوں نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف اور پارٹی میںچودھری نثارعلی خاں جیسے قابل اعتماد ساتھیوں سے مشاورت کے بجائے انہیں نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ انہیں عدالتی عملداری میں پہلی بار حقیقی احتساب کا سامنا کرنا پڑا تو یہ صورتحال ان سے سیاسی فہم و تدبر کا دامن مضبوطی سے تھامنے کی متقاضی تھی جس میں پارٹی کے قابل اعتماد ساتھیوں سے مشاورت لازمی تقاضا ہوتا ہے۔ اسکے برعکس میاں نوازشریف کے حوالے سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ پارٹی پر صرف اپنی اور اپنے اہل خانہ کی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں جس سے پارٹی کی صفوں میں انکی سیاست کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا ہونا بھی فطری امر تھا۔ جب انہوں نے پارٹی قیادت کیلئے میاں شہبازشریف پر اعتماد کرنے سے بھی گریز کیا اور وزارت عظمیٰ کیلئے ان کا نام پیش کرکے واپس لے لیا تو اس سے شریف فیملی کے اندر بھی بدگمانیاں پیدا ہوئیں جبکہ چودھری نثارعلی خاں نے انکی پالیسیوں کی کھلم کھلا مخالفت کا راستہ اختیار کرلیا۔
مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا دارومدار بلاشبہ میاں نوازشریف کی ذات پر ہے تاہم فیصلہ سازی کے عمل میں فردواحد کے عمل دخل کے تصور سے پارٹی کی کمزوری کی بنیاد پڑتی ہے اور میاں نوازشریف کے طرزعمل سے مسلم لیگ (ن) کی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے بادی النظر میں یہی محسوس ہورہا تھا کہ آئندہ انتخابات تک اس پارٹی کی صفوں میں مضبوطی قائم رکھنا مشکل ہو جائیگا۔ میاں نوازشریف نے لاہور کے ضمنی انتخاب میں میاں شہبازشریف کے بجائے اپنی اہلیہ بیگم کلثوم کو میدان میں اتارا تو بدقسمتی سے انکے گلے کے کینسر کی نشاندہی ہو گئی جس کے علاج کیلئے انہیں فوری طور پر لندن روانہ ہونا پڑا چنانچہ انکی عیادت کیلئے لندن جانا میاں نوازشریف کی بھی مجبوری بن گیا۔ اس دوران انکے اور انکے خاندان کے ارکان کیخلاف نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں بھجوائے گئے ریفرنسوں کی کارروائی بھی شروع ہوگئی تھی تاہم ان ریفرنسوں کے تمام مدعا علیہان ایک ایک کرکے لندن چلے گئے اور ضمنی انتخاب کے اگلے روز مریم نواز نے بھی لندن پہنچ کر ٹویٹر پیغام دیا کہ میاں نوازشریف کو احتساب عدالت میں پیش ہونا چاہیے نہ وہ پیش ہونگے تو اس سے یہی تاثر ابھرا کہ شریف فیملی نے اپنی گرفتاری اور احتساب عدالت کی کارروائی سے بچنے کیلئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اگر فی الواقع ایسا ہی طے کیا جاتا تو اس سے یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجاتا کیونکہ میاں نوازشریف پارٹی قیادت بھی میاں شہبازشریف کو سونپنے کے روادار نہیں تھے۔ اسکے باوجود میاں شہبازشریف نے وسعتِ قلبی و نظری کا مظاہرہ کیا اور پارٹی کا ممکنہ طور پر تاریک ہوتا ہوا سیاسی مستقبل بچانے کی خاطر انہوں نے میاں نوازشریف کو ملک واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا آبرومندی کے ساتھ سامنا کرنے اور سیاسی مخالفین کا سیاسی میدان میں ہی سامنا کرنے پر قائل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں لندن جانے سے قبل انہوں نے چودھری نثارعلی خاں سے طویل مشاورت کی اور مسلم لیگ (ن) کی آئندہ کی سیاست کا لائحہ عمل طے کیا چنانچہ فہم و بصیرت سے طے پانے والے اس لائحہ عمل پر میاں نوازشریف نے بھی میاں شہبازشریف اور دوسرے اکابرین کے ساتھ مشاورتی میٹنگوں میںاتفاق کیا اور ملک واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ انکی جانب سے بلاشبہ ایک صائب اقدام ہے جس کے تحت گزشتہ روز اسحاق ڈار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے ہیں جبکہ آج بروز منگل میاں نوازشریف بھی احتساب عدالت کے روبرو پیش ہو جائینگے تو اس نے انکی جانب سے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری تسلیم کرنے کا ٹھوس پیغام جائیگا جبکہ اس سے وہ عدالت میں عدم موجودگی والی متوقع سزا سے بھی بچ جائینگے اور اپنی موجودگی میں اپنے خلاف کیس کا بھی احسن طریقے سے دفاع کر سکیں گے۔
میاں نوازشریف کی ملک واپسی پر پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں سب سے پہلے چودھری نثارعلی خاں ہی ان سے ملاقات کیلئے آئے جنہوں نے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے انکے ساتھ تبادلہ¿ خیال کیا بلکہ انکی قیادت پر بھی مکمل اعتماد کا اظہار کیا جو اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ چودھری نثار علی خاں پارٹی کے اندر کوئی دھڑا بنانے کے بجائے میاں نوازشریف ہی کی زیرقیادت پارٹی کو آئندہ کی انتخابی سیاست کیلئے فعال کرنا چاہتے ہیں جس کے میاں شہبازشریف بھی خلوص دل کے ساتھ خواہش مند ہیں۔ اب آنیوالے حالات میں مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو لامحالہ مزید کٹھن صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا جن سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے پارٹی کی صفوں میں مکمل اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے جبکہ میاں نوازشریف پامردی کے ساتھ نیب کے مقدمات اور سسٹم کیخلاف جاری غیرجمہوری عناصر کی سازشوں کا مقابلہ کرکے اپنی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں بھی سرخرو کر سکتے ہیں۔ اگر اس موقع پر ”دمادم مست قلندر“ والی پالیسی اختیار کی جائیگی تو اس سے جمہوریت کا تسلسل اور آئندہ انتخابات کا انعقاد بھی مخدوش ہو سکتا ہے جو بالخصوص عمران خان اور انکے ساتھی غیرجمہوری عناصر کا مطمح نظر ہے۔
اس صورتحال میں میاں نوازشریف پارٹی میں نوجوان قیادت کی بجائے اپنے قابل اعتماد دیرینہ ساتھیوں اور سینئر ارکان کو ساتھ لے کر چلیں گے تو انکی سیاست اور قیادت مزید مستحکم ہو جائیگی۔