پاکستان میں جمہوری عمل جاری ہے اور کرپشن کے خلاف جہاد ہورہا ہے تو ہمیں ایک ایسے شخص کی یاد آرہی ہے جسکی ساری زندگی کرپشن کے الزام سے آزاد رہی۔ آج بڑے بڑے سیاستدانوںِ، بیوروکریٹس اور کاروباری لوگوں پر لوٹ مار کے الزامات لگ رہے ہیں جن کے خلاف وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کمربستہ ہیں۔ کرپشن کا ناسور ملکوںاور قوموں کو کھا جاتا ہے۔ اس لئے کرپشن فری سیاستدانوں کی تلاش کرنا پڑتی ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک شخص تین کمروں کے گھر میں رہائش اختیار کرکے بھی لوگوں کے دلوں میں بستا تھا اور بڑے بڑے آمروں کو فارغ کردیتا تھا۔ بڑے گھروں اور روپے کی ریل پیل کے تصور کواس شخص نے بڑا لیڈر بن کر ختم کر دیا۔ وہ ایک ایسے سیاسی لیڈر تھے جن کے بارے میں عوام جانتے تھے کہ اْن کی سیاست کا مقصد پیسہ بنانا نہیں۔
آج ہم بابائے جمہوریت کی برسی منا رہے ہیں جو جمہوریت کی بحالی کے سفر کے دوران دل کا دورہ پڑنے کے بعد 26ستمبر 2003ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے کمزور جمہوریت کو مضبوط آمریت سے بہتر قرار دہنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان نے تحریک پاکستان کی جدوجہد سے لیکر جمہوریت کی بحالی تک بھرپوراور نمایاں رول ادا کیا۔ وہ ہر تحریک کا ہراول دستہ رہے۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا تو جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ انکی جمہوریت کی جدوجہد کی بدولت وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ وہ جمہوریت کو ملکی ترتی کا ضامن تصور کرتے تھے۔ معاشی مسائل کے حل بھی جمہوری نظام میں دیکھتے تھے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ اْن کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ وہ کہتے تھے کہ جمہوریت کے ساتھ کوئی لاحقہ نہیں ہوتا جمہوریت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی تیسرا کوئی آپشن نہیں۔
نوابزادہ نصراللہ خان1918ء کو خان گڑھ میں پیدا ہوئے 1928ء سے لیکر 1933ء تک ایچیسین کالج میں تعلیم حاصل کی۔ برطانوی راج کی مخالفت کی اور 23مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان میں شریک ہوئے 1952، 1962 ، 1970، 1977، 1988 ، 1993 ، 1997 اور 2002 کے انتخابات میں حصہ لیا۔ زندگی میں بے شمار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں جبکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پانچ سال قید رہے۔
پاکستان بننے سے لیکر زندگی کے آخری دن تک تمام جمہوری تحریکوں کا حصہ رہے جبکہ حکمرانوں کے ساتھ ہونے والے تمام مذاکرات میں شریک ہوتے رہے۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ پوری زندگی لاہور کے چھوٹے سے گھر میں گزار دی۔ بڑے بڑے حکمرانوں نے اْس چھوٹے کرائے کے گھر کی یاترا کی۔ آمریت کے خلاف اتحاد بنانے کے فن کو جانتے تھے۔ اْنکی زندگی کے بعد آج تک کوئی سیاسی اتحاد نہیں بن سکا۔ اؑنکی زندگی کا آخری اتحاد بھی انتہائی شاندار تھا جس میں انہوں نے دودو دفعہ وزیراعظم رہنے والے اور ایک دوسرے کے شدید مخالفین کو مشرف آمریت کے خلاف ARDکے پلیٹ فارم پر اکھٹا کر دیا۔ زندگی کے آخری دنوں میں بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سے مذاکرات کیلئے دوبئی اور جدہ کا دورہ کیا جس میں پائیدار جمہوریت کی بنیاد رکھی گئے۔ ARDکے اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد جا رہے تھے تو دل کا دورہ پڑا اس طرح بابائے جمہوریت نے ایک عظیم مقصد کے دوران جان کی قربانی دے دی۔
2002ء کا الیکشن جنرل مشرف کی نگرانی میں ہوا تھا لیکن الیکشن کرانے کی مجبوری اے آر ڈی کی تحریک کی بدولت ہوئی۔ 2002ء کے الیکشن کے بعد آج مسلسل تیسری جمہوری حکومت کام کررہی ہے۔ تین انتخابات ہوئے اور تینوں مرتبہ پْرامن ۔طور پر اقتدار ٹرانسفر ہوا۔ جمہوری سفر شوکت عزیز سے ہوتا ہوا یوسف رضا گیلانی تک پہنچا اور پھر میاں نواز شریف کو ٹرانسفر ہوا۔ آج یہ سفر شاہد خاقان عباسی سے عمران خان تک پہنچ چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پہلی دفعہ حکومت میں آئے ہیں۔ حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے لیکن کوہ ہمالیہ سے بڑھ کر عزم رکھتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی روح خوش ہورہی ہوگی جب وہ دیکھ رہے ہونگے کہ جمہوریت کے عزم کے ساتھ ساتھ ایک ایسا شخص حکمران ہے جو ملک کو آگے لے جانا چاہتا ہے اور کرپشن ختم کرنا چاہتا ہے۔ مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کے ساتھ لندن اور دبئی کا سفر کیا اور ہم نے اکھٹے عمرہ بھی ادا کیا۔ سیاسی اتحادوں میں چھوٹی پارٹیوں کی شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آمریت کے خلاف چھوٹی چھوٹی آوازوں کو بھی شامل کرکے ہی بڑی آواز بن سکتے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے عمران خان کو بھی شامل کیا تھا تو وہ کہتے تھے کہ اس شخص میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے عزم اور حوصلہ ہے۔ آج عمران اْسی عزم کے ساتھ ملک کا حکمران ہے اور نئی نئی جمہوری روایات قائم کر رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو بہتر بنانا اور پارلیمنٹ کے وقار کو بلند کرنا ہی اصل جمہوریت ہے۔ عمران خان کا یہ اعلان کہ ایک ماہ میں دو مرتبہ اسمبلی کے سوالات کے جواب دیں گے۔ پارلیمنٹ کے مضبوط ہونے کی علامت ہے۔ نوابزادہ نے اسی پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے ساری زندگی وقف کئے رکھی آج ہم اْنکی برسی ایک ایسے وقت پر منا رہے ہیں جب پاکستان میں جمہوریت کا بول بالا ہے۔ ہم آگے کی طرف جا رہے ہیں۔ ادارے آزاد اور خودمختار ہو رہے ہیں۔ شخصی آزاد ی ہے یہی تو نوابزادہ کا خواب تھا۔ آج کا دن جمہوریت کا دن ہے۔ ہم انکی یاد جمہوریت کے دن کے حوالے ہی منا رہے ہیں۔