ملت اسلامیہ کے عظیم مفکر، مفسر، ادیب، سکالر اور راہنما سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ 23 ستمبر 1979ء کو انتقال کر گئے تھے، لیکن اپنی فکر اور علمیت کی وجہ سے وہ آج بھی زندہ ہیں۔ دنیا میں کروڑوں مسلمان ان کی تحریروں اور فکر سے ’’تعمیر سیرت‘‘ کے لیے راہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ دو قومی نظریے کے بانیوں میں سے تھے، افسوس وطن عزیز میں انکے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدانخواستہ ’’پاکستان‘‘ کے مخالف تھے اور کانگریس کے حمایتی… دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ ان کی فکر کی وارث جماعت ’’جماعت اسلامی‘‘ ہر موضوع اور محاذ پر اپنا موقف تو پیش کرتی ہے لیکن تاریخی اعتبار کے برعکس مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے خلاف بہتان اور کذب بیانی پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ لہٰذا مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر اور شخصیت کے خلاف کی گئی بہتان بازی اور کذب بیانی کا پردہ چاک کرنے کے لیے مجھے خود قلم اٹھانا پڑا (اس کی مکمل تفصیل میری کتاب ’’آفتاب علم و عرفان مولانا ابواعلیٰ مودودیؒ) میں درج ہے یہاں اختصار کیساتھ میں چند تاریخی حقائق بیان کر رہا ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک مفکر ہیں اور علوم اسلامیہ اور جدید علوم سے بہرہ مند کامل شخصیت ہیں، وہ اپنی علمیت اور سوچ کی بنا پر نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ عالم اسلام میں اپنی شناخت رکھتے ہیں اور ہر مکتب فکر ان کا احترام کرتا ہے۔ اس لیے ان کو تحریک پاکستان کے پس منظر میں ایک فالور کے طور پر نہیں بلکہ ایک مفکر راہنما کے طور پر دیکھا اور سمجھا جائے اسی طرح جیسے علامہ اقبالؒ ایک فکر اور سوچ کے حامل عظیم مفکر اور شاعر ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ ابتداء میں سمجھ لینا ضروری ہے کہ برصغیر میں دو طرح کے نظریات (فکری اور سیاسی طور پر) موجود تھے اولاً وہ لوگ جو ہندوستانی نیشنلزم کا پرچار کرتے تھے، وطنیت کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔
دوئم۔ وہ افراد جو ہندوستان میں دو قوموں (ہندو اور مسلمان) کی بنیاد پر الگ شناخت پر زور دیتے تھے ان کے نزدیک مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان کی تہذیب و تمدن، بول چال، رہن سہن ہر چیز جدا ہے بلکہ ایک کے ہیرو دوسرے کے ولن ہیں۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت حلال ہے اور وہ اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یہ افراد سمجھتے تھے کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں ہندوئوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے اس لیے ان کو علیحدہ خطہ ارض کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے دین کے مطابق زندگی گزار سکیں۔یہی نظریاتی یگانگت ان افراد میں تھی جس کے سرخیل علامہ اقبالؒ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو، گاندھی صاحب، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سید ذاکرحسین وغیرہ ان کے نظریاتی اور سیاسی مخالفین تھے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ دونوں مفکر تھے اور اپنی اپنی فکر رکھتے تھے لیکن ان کا مشترک نظریہ تھا بلکہ ہے وہ ہے ’’دو قومی نظریہ‘‘ جو نظریہ پاکستان کی بنیادی اساس ہے، یعنی دونوں مفکرین ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا اس بات میں سمجھتے تھے کہ وہ ایک الگ خطہ ارضی پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندی گزار سکیں۔ علاوہ ازیں دیگر مسلمان زعماء و قائدین بھی تھے جنہوں نے اس نظریہ کے مطابق اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ جیسے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سیکرٹری سید شریف الدین پیرزادہ نے ان الفاظ میں لکھا ہے۔
’’وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبداللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سر سکندر حیات، سر ظفر الحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، چوہدری خلیق الزماں وغیرہ نے دئیے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگ ہائے میل ہیں۔‘‘ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں۔
’’مولانا مودودیؒ نے ترجمان القرآن کے سلسلہ ہائے مضامین کے ذریعے جو 1938-39ء شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ مولانا نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کے مخصوص حالات میں اس کے لیے جمہوریت ناموزوں ہے، اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوئوں کو چار ووٹ ملیں گے، انہوں نے ہندوئوں کے قومی استعمار کی بھی مذمت کی اور اس رائے کا اظہار کیا کہ محض مخلوط انتخاب یا اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انہوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان صورتوں میں آخری صورت تقسیم ملک کی تھی۔‘‘
علامہ اقبالؒ کا مولانا مودودیؒ سے تعارف پہلی بار ان کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ سے ہوا جو انہوں نے محض 24 سال کی عمر میں لکھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن(کتابی صورت میں) 1930ء میں شائع ہوا، علامہ اقبالؒ نے اس کتاب کو اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف قرار دے کر اہل علم حضرات کو اس کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔اس سے پہلے کہ ہم مولانا مودودیؒ کے تین فارمولوں کو پیش کریں، ایک نظر علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے تعلق پر ڈال لیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ 1930ء کے بعد سیاست میں کافی حد تک متحرک ہوئے لیکن ایک مفکر کے طور پر انہوں نے تخلیق اور فکر پر زیادہ زور دیا، یہ ان کی تخلیق اور فکر کے حوالے سے اوج کا زمانہ تھا، انہوں نے اپنی تخلیق اور فکر کے تصور کو عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ و دیگر شخصیات کو ابھارا، وہاں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تاکہ وہ اس خطے میں جہاں ان کے خیال کے مطابق اسلامی ریاست بنانا مقصود تھی بیٹھ کر عملی جدوجہد کریں۔ علامہ اقبالؒ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ ’’دو قومی نظریے‘‘ کے زبردست داعی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح کانگریس اور ان کے ہمنوائوں کا محاسبہ کیا وہ ان کے نزدیک قابل تحسین تھا، اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اپنی تحریروں سے قوم کو ہلاکت سے بچائے اور اسلامی ہند کی گزشتہ تاریخ اور موجودہ حالت پر محض ایک صحافی، ادیب، مورخ یا سیاست دان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، اس کے مخاطب صرف وہ لوگ ہوں جو اول بھی مسلمان ہیں اور آخر بھی مسلمان۔ ایک ایسی شخصیت جسے صرف سیاسی آزادی اور معاشی استقلال ایک ہندوستانی کی حیثیت سے درکار نہ ہو، جو کانگریس کے نظریہ قوم پرستی کے پرخچے اڑا سکے، جس کا قلم اس قابل ہو کہ مسلمانوں کے دل میں اس کی بات اتر جائے، جو اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ جرأتِ ایمانی اور صفاتِ مومن سے مالا مال ہو، انہوں نے بھانپ لیا کہ یہ مولانا مودودیؒ ہی ہو سکتے ہیں جو کانگریس کے حقیقی روپ کو بے نقاب کرنے اور ہندو سامراج کے ہتھکنڈوں سے ملت اسلامیہ کو آگاہ کر کے انہیں اس جال سے بچنے کی تلقین کریں جو بعض علماء اور مسلمانوں کی مدد سے کانگریس پھینک رہی تھی۔( کانگریس کے پھندے سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے انہوں نے دن رات کام کیا جس کے باعث وہ آج تک مسلمانوں کے ایک گروہ کے نزدیک معتوب ہیں)۔
اقبالؒ سمجھتے تھے کانگریس کے پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے موثر اور لاجواب دلائل بہم پہنچانے والی شخصیت مولانا مودودیؒ ہی ہو سکتے ہیں۔مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی اولین ملاقات کا باعث پٹھان کوٹ کا ’’دارالسلام‘‘ بنا۔ ہوا کچھ یوں کہ موضع جمال پور (پٹھانکوٹ) کے ایک ریٹائرڈ ایس ڈی او (محکمہ انہار) چودھری نیاز علی ایک جرمن نو مسلم محمد اسد کی معیت میں لاہور آئے اور عرض کی کہ انہوں نے جمال پور میں ایک دینی مدرسے کے لیے 70 ایکڑ زمین وقف کر دی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا دینی مدرسے تو اور بھی کافی تعداد میں ہیں، اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ فقہ اسلامی کو جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا کام سر انجام دیا جائے، چنانچہ اس ادارے کے اغراض و مقاصد میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے، چنانچہ مذکورہ کام کو بطریق احسن سر انجام دینے کے سلسلے میں کئی نام زیر غور آئے، مولانا عبیداللہ سندھی، سید سلیمان ندوی، عبداللہ یوسف علی اور علامہ محمد اسد سے اس ضمن میں رابطہ قائم کیا گیا لیکن ان حضرات نے اپنی مجبوریوں کی بنا پر معذرت کر دی۔ اس وقت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام بھی علامہ اقبالؒ نے چودھری نیاز علی کے سامنے پیش کیا۔
چنانچہ علامہ اقبالؒ اور چودھری نیاز علی نے الگ الگ مولانا مودودیؒ سے حیدر آباد میں مراسلت شروع کر دی، علامہ اقبالؒ نے مولانا مودودیؒ سے وعدہ کیا کہ وہ بھی سال میں چھ مہینے اس ادارے میں گزاریں گے، اس پر مولانا مودودیؒ نے چوہدری نیاز علی کے نام مکاتب میں اس ادارے کے لیے ایک جامع خاکہ لکھ کر انہیں بھیجا، اس دوران علامہ اقبالؒ کا اصرار بھی حد سے زیادہ بڑھ گیا کہ مولانا مودودیؒ شمالی ہندوستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں چنانچہ مولاناؒ نے چوہدری نیاز علی کو دہلی میں ملنے کا کہا، دہلی میں اس معاملے میں بات چیت ہوئی، مولانا مودودیؒ کچھ قائل ہو گئے، چنانچہ اگست 1937ء کے اواخر میں دونوں صاحبان جالندھر سے ہوتے ہوئے لاہور آئے اور علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی جس میں طے پایا کہ علامہ اقبالؒ سال میں چھ ماہ پٹھانکوٹ میں گزاریں گے۔ اس کے بعد نیاز علی صاحب کے پاس آئے، اور ان کی علامہ اقبالؒ سے تفصیلی ملاقاتیں مسلسل تین دن ہوتی رہیں، ان ملاقاتوں میں جمال پور (پٹھانکوٹ) کے اس مدرسے کا نام مولانا مودودیؒ نے ’’دارالسلام‘‘ تجویز کیا جسے علامہ اقبالؒ نے انتہائی پسند فرمایا، اس دوران میں وہ حیدر آباد چلے گئے تاکہ اپنا سازوسامان لے آئیں، وہ اپنا سامان لے کر 18 مارچ کو پٹھان کوٹ پہنچے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ جلد لاہور پہنچ کر علامہ سے ملاقات کر کے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں گے لیکن 21 اپریل کو علامہ اقبالؒ انتقال کر گئے۔ (جاری)