شعراء آج بھی علامت و استعارہ کے طور پر پیغام کربلاپھیلا رہے ہیں، افتخا ر عارف

اسلام آباد (نا مہ نگار)ہمارے شعراء آج بھی علامت و استعارہ کے طور پر کربلا کے پیغا م کو پھیلا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار افتخا ر عارف نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ماہِ محرم الحرام کی مناسبت سے منعقدہ ’ ’محفلِ مسالمہ‘‘میں صدارت کرتے ہوئے کیا۔اختر عثمان مہمانِ خصوصی تھے ۔ مجتبیٰ حیدر شیرازی، شوکت کاظمی اور نصرت زیدی مہمان ِ اعزاز تھے۔ ڈاکٹر راشد حمید،ڈائریکٹر جنرل، اکادمی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔نظامت علی یاسر نے کی۔ افتخار عارف نے کہا کہ اردو شاعری کا اختصاص یہ ہے کہ اپنے آغاز سے ہی اس میں حمد، نعت، منقبت، سلام اور مرثیہ کی روایت قائم ہے۔ ہر اہم شاعر نے اس واقعہ کو نظم کیا اور امامِ عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اقدار کے حوالے سے واقعاتِ کربلا کی جیسی ترجمانی ہماری زبانوں میں ہوئی، وہ اپنی جگہ ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ڈاکٹر راشد حمید نے کہا کہ ہر سال اکادمی ادبیات پاکستان ، ماہ مقدس محرم الحرام کی مناسبت سے شہدائے کربلا کوخراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے محفلِ مسالمہ کا اہتمام کرتی ہے بلا شبہ واقعہ ٔ کربلا انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ افتخار عارف، اختر عثمان، مجتبیٰ حیدر شیرازی، شوکت کاظمی ، نصرت زیدی اختر رضاسلیمی، حسن عباس رضا، فرحانہ علی، ناصر علی ناصر، سلیم اختر، محبوب ظفر ، ماجد شاہ، سائل نظامی، عمران عامی، نصیر احمد اسیر چشتی، عتیق الرحمن چشتی،فاخرہ نورین، طالب حسین طالب، اطہر ضیاء، کاشف عرفان، علی عارف، جنید آذر، شیدا چشتی، علی احمد قمر، علی ارمان ، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، راحت سرحدی، وفا چشتی ، جاوید احمد ،راشدہ ماہین ملک ، قمر زمان ، رئیس عباس اور دیگر نے اپنا کلام پیش کیا۔

ای پیپر دی نیشن