دوڑ اک جاری ہے اوروں کو گرانے کیلئے
کاش گرتوں کو بھی ہو کوئی اٹھانے کیلئے
دل دیا قدرت نے سارے غم چھپانے کیلئے
چشم ہے سو ہے فقط آنسو بہانے کیلئے
آشیانہ بھی ابھی بننے نہ پایا تھا مگر
بجلیاں بے تاب ہیں اس کو جلانے کیلئے
بات دل رکھنے کی تھی مقصود گر کرنا انہیں
بات کیوں پھر کی انہوں نے دل دکھانے کیلئے
جتنے کی دھن میں ان کو یاد یہ بھی نہ رہا
لڑ رہے ہیں ایک ہارے کو ہرانے کیلئے
تلخیاں پائی ہیں اپنی زندگی میں اس قدر
ایک مدت چاہیئے ان کو بھلا نے کیلئے
ایک عرصہ سے خفا ہے اپنے یاروں سے ضیاء
کاش آ جائے اسے کوئی منانے کیلئے
شرافت ضیاء فراشوی