سیکولرازم ، یورپ ، ترکی اور آیا صوفیہ...

ویسے تو سعودیوں کے تعلقات سیکولر مغربی ممالک سے ہمیشہ اچھے رہے ہیں . مگر افغان وار کے دنوں میں یہ کافی بلندیوں پر تھے . ان دنوں بیلجئم کے شہر برسلز میں واقع مرکزی مسجد کے امام اور اسلامی سینٹر کے ڈائریکٹر جو سعودی تھے ، نے بچوں کیلیے اسلامی سکول کی اجازت کیلیے بیلج حکام کو درخواست دی . آثار کیمطابق مطلوبہ اجازت کی باریابی کی کافی امید تھی . کیونکہ ایک تو یورپ بشمول بیلجئم کے سعودیہ کے ساتھ کوئی سفارتی مسائل نہیں تھے بلکہ افغان جہاد میں وہ اپنا پیسہ جھونک کر اور انکے دیرینہ دشمن روس کو زک پہنچا کر بھی ایکطرح ان سے بھی تعاون کر رہا تھا . دوسرے یہ کہ یہودیوں سمیت دیگر مزہبی کمیونٹیوں کو بھی مذہبی سکول کی سہولت برابر حاصل تھی . دسیوں مختلف ممالک کے ہزاروں مسلمانوں کیلیے ایک اسلامی سکول ایک اشد ضرورت تھی جس سے ایک سیکولر معاشرے میں انکار مشکل تھا . الا یہ کہ کوئی ایسا ویسا واقعہ پیش آتا کہ جس سے یورپی معاشرے میں مسلمانوں کے ادغام کے معاملے پر کوئی سنجیدہ سوال کھڑا ہو جاتا ۔
شومئی قسمت کہ اتفاقاً انہی ایام میں اسلامی دنیا سے ہی وہ اہتمام بھی ہو گیا . ہوا کچھ یوں کہ اس بیچ ناموس رسالت والے معاملے پر ایرانی حکومت نے سلمان رْشدی کے سر پر انعام کا اعلان کر دیا تھا . شیطانی آیات نامی کتاب میں شانِ رسالت کیخلاف اقتباسات کے سامنے آتے ہی پاکستان میں تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی تھی کہ اس کی بھنک کہیں ایران میں بھی جا پڑی . ایران کہ جسکی خفیہ فورسز انقلاب کے بعد منحرف ایرانیوں کا پیچھا کرتے کرتے کسی بھی ملک میں جا کر انکا خاتمہ کر آتے تھے . پاکستان اور خصوصاً لاہور میں بھی ایسی کئی کاروائیاں کر کے انہوں نے کافی منحرفین کو قتل کر دیا تھا . ایرانی حکومت اگر واقعی رشدی کا خاتمہ کرنا چاہتی تو ان خفیہ کارندوں کے زریعے بخوبی اور بغیر نشانہ خطا کئے اسے آسانی سے مروا سکتی تھی . اور یوں شاتمِ رسول واصلِ جہنم ہو کر مقامِ عبرت بھی بنتا اور نام کسی حکومت کا بھی نہ آتا . مگر ایرانی حکومت نے اسلامی دنیا میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے کیلیے ناموسِ رسالت کو محض ایک سٹنٹ بنا دیا . اور رشدی کے سر پر انعام کا اعلان کر کے مغرب کیساتھ ایک نئے سیاسی و مزہبی مناقشے کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے مغرب میں عالم اسلام کیلیے عدم برداشت کے جزبات پر منتج ہوا . یوں رشدی تو کیا مْردار ہوتا ، اْلٹا یورپ میں دعوتِ اسلام کو بھی کافی سیاسی نقصان پہنچا .ھیڈ منی والے اعلان کے سامنے آتے ہی مغربی میڈیاز میں خبروں و تبصروں کا جیسے طوفان آگیا تھا . عام طور پر خبروں سے دور رہنے والے یورپی عوام بھی ٹی وی اور اخبارات کی سرخیوں پر گرم گرم تبصرے و مباحثے کر رہے تھے . راقم کو ان دنوں یورپ میں وارد ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا اور وہاں ڈچ زبان کی کلاسز لے رہا تھا . یونیورسٹی کی لینگویج کلاس میں بھی زبان کی مشق کا موضوع سْخن یہی کرنٹ ایشو تھا . سب یورپی طلباء  و طالبات میں راقم اکیلا ہی ایشیائی اور مسلمان تھا . انکے آزاد ملک میں موجود کسی شہری کے قتل پر ابھارنے اور اس کیلیے انعام سے نوازنے کا ایرانی اعلان انہیں اپنی آذادئِ رائے ، حاکمیت و خودمختاری پر حملہ لگ رہا تھا . وہ غم و غصے اور جوش و جزبے سے تلملا رہے تھے . بظاہر لگتا تھا کہ یہ قوم کسی بھی چیز پر آزادی رائے کو مقدم رکھتی ہے . یہی وجہ تھی کہ وہ اس مدعے کی آڑ میں اسلامی سکول کے خیال کو بھی دفنا دینا چاہتے تھے . کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ اس سکول میں پڑھنے والے بچے سیکولر نظام کیخلاف کبھی بھی سنجیدہ چیلنج بن سکتے ہیں .
عوام کے جزبات کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت نے بھی مجوزہ اسلامی سکول کی اجازت دینے سے باقاعدہ انکار کر دیا . اس اچانک افتاد پر وہاں مقیم مسلمانوں اور امام کو شدید دھچکہ لگا . اسلامی سکول کا موضوع بھی لینگویج کلاس کا موضوعِ مشق بنا . یورپی نوجوانوں کی آنکھوں میں مذہبی یلغار اور اسلامی تہذیب سے خوف کی پرچھائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں . یقیناً انکے اخبارات اور چینلوں کو بھی مسموم فضا بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن