بہت پرانی بات ہے ہمارے ایک رشتہ دار جو فرنیچر بنانے کا کام کرتے تھے سے ایک ساتھی نے کہا اللہ دتہ میرے پاس ایسا تعویز ہے جو بھی اپنے بازو پر باندھے گا کسی کو نظر نہیں آئے گا ، اللہ دتہ نے اس بات کا اعتبار کیا اور کارخانے کے پچھلے حصے کی نکر میں جاکر اپنے بازو پر تعویز باندھی واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کے آگے رکھے ہوئے اوزار اٹھاتے رہے ان کے دوست کہتے رہے یار فلان چیز ابھی تو یہاں تھی کہاں گئی یہاں تک کے ان کے پاس پڑی روٹی کی پوٹلی بھی اٹھالی مگر ان کے دوستوں نے انہیں باور کرایا جیسے وہ انہیں نظر ہی نہیں آ رہا شام کو اللہ دتہ تعویز باندہ کر حلوائی کے دکان سے مٹھائی چرانے گئے جیسے ہی مٹھائی کی مختلف چیزوں پر ہاتھ ڈالا تو حلوائی نے جھڑک دیا اور بازو پکڑ کر کہا کیا کر رہے ہو اللہ دتہ حلوائی سے پوچھنے لگے میں آپ کو نظر آ رہا ہوں حلوائی غصے سے بولے کیا میں اندھا ہوں ؟ اگر چہ یہ واقعہ میں نے چالیس سال قبل سنا تھا مگر آج مجھے دیکھتی آنکھوں والے اندھے اور سنتے کانوں والے بہرے دکھائی دیتے ہیں کس میں مجال ہے تعویزوں والی سرکار سے پوچھے کہ تم جو تباہی کر رہے ہو ہماری بائیس سال کی محنت پر پانی پھیر رہے ہو ؟ غالبا وہ تاحال اپنے ایجاد پر شرمسارنہیں ہیں۔ بقول شاعر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اس قدر تو منی بھی بدنام نہیںہوئی تھی جتنی بالما کو متعارف کرنے میں بدنام ہو چکے ہیں ۔ غالبا سات سال قبل معروف اینکر، صحافی اور کالم نویس نصرت جاوید نے ٹاک شو میں اپنے ساتھی اینکر مشتاق منہاس سے کہا تھا آئیں مل کر آصف علی زرداری کے خلاف باتیں کرتے ہیں، آصف علی زرداری نہ تو شکوہ کریں گے ،نہ چینل مالکان سے شکایت کرکے نوکری سے نکلوائیں گے اور نہ ہی ٹانگیں تڑوائیں گے ۔ مجھے یاد ہے 2008 سے 2013 تک اسلام آباد سے راولپنڈی جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی ہر گاڑی میں تین سے چار افراد کی ڈیوٹی صرف یہ تھی کہ وہ آصف زرداری کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں اور وہ طرح طرح کی طوطا کہانیاں سنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے تھے ۔ اب جب پیپلزپارٹی کی حکومت کو گئے ساڑھے آٹھ سال ہو چکے ہیں، میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ اللہ کو حاضر ناظر سمجھ کر دیانتداری سے پیپلزپارٹی کی حکومتوں اور دیگر حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو انہیں صاف نظر آئے گا کہ پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی باقی حکومتوں سے بہترین نظر آئے گی ۔ اور سچ یہ ہے کہ جب ملک مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کے راستے سے رکاوٹیں ہٹائی جاتی ہیں مگر ملک جیسے ہی مشکلات سے نکلتا ہے تو پیپلزپارٹی کے خلاف سازشوں کا سلسہ شروع ہوجاتا ہے ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر قیادت پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے ایک طرف وطن دشمن دہشتگردوں کا صفایہ کیا تو دوسری طرف دو خطر ناک سیلابوں کا سامنا بھی کیا سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود نہ انسانی خوراک کا بحران پیدا ہوا اور نہ ہی قیمتوں میں ایک ٹیڈی پیسے کا اضافہ ہوا ملک کے کسی حصے میں آگر آسمانی آفت آئی تو خلق خدا کی ہر طرح کی مدد کیلئے وفاقی حکومت نے رتی برابر بھی کوتاہی نہیں کی پاکستان بیت المال کے سربراہ چودھری زمرد خان ذاتی خرچے پر فوری طور وہاں پہنچے اور خلق خدا کی خدمت اور مدد کی ، چوہدری زمرد خان کسی اور کا نہیں آصف علی زرداری کا بے مثال انتخاب تھے ، بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ان کے دفتر میں آنے والوں چاہے وہ وزیر ہوں یا امداد کی درخواست لانے والی بیوہ غریب خواتین ان کو بغیر کسی امتیاز کے چائے بسکٹ مہیا کیئے جاتے تھے جس کا خرچہ زمرد خان اپنے جیب سے کرتے تھے ، اب زمرد خان یتیم بچوں کے بابا جانی ہیں اور وہ یتیم بچے جوان ہو چکے ہیں اور آعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ ہے اصل شناخت پیپلزپارٹی کی پر یہاں پیپلزپارٹی کی قیادت کی کردار کشی کو ثواب کا کام سمجھ کر کرنے کا فیشن ہے ۔ معنی کہ پیپلزپارٹی پارٹی کی قیادت نے تاج محل جیسے یاد گار تو نہیں بنائے مگر انسانوں کے لیئے روزگار کے وسائل پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، شکر ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے عالمی رفاعی ادارے مدد کر رہے ہیں جس کو ختم کرنے کیلئے دو حکومتوں نے بھرپور کوشش کی جب ناکام رہے تو کسی نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر مٹانے کی کوشش کی تو کسی نے نام مٹانے کی ، مگر عالمی رفاعی اداروں سے جو رقم آ رہی ہے وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ، حیرت کی بات یہ ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اپنی شاہراہوں کے نام محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے منسوب کر رہے ہیں اور یہاں ان کا نام مٹانے کی مشق جاری ہے ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیت پر تو فخر کرتے ہیں مگر بھٹو شہید جو اس قومی اثاثے کا خالق ہے ان سے نفرت کرتے ہیں، ہم میزائل کو نشانہ پر داغ کر ناز تو کرتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں میزائل ٹیکنالوجی لانے والی محترمہ بینظیر بھٹو شہید تھیں، ہم قومی راہداری پر ڈھول تو بجاتے ہیں مگر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ قومی راہداری کے بانی صدر آصف علی زرداری ہیں ، چالیس پچاس کا دور اور تھا اللہ دتو کو نظر نہ آنے کا مذاق کیا جاتا تھا مگر اس سائنسی دور میں جادو ،ٹونے کا سہارا لیکر ملک اور قوم کو تو تاریک اندھیروں کا مسافر تو بنایا جا سکتا ہے مگر ترقی یافتہ دنیا کو فریب نہیں دیا جا سکتا ، اب تو ہمارا اپنا بچہ ہمیں آنکھیں دکھارہاہے یہ شرمساری کی شروعات ہے تباہی دروازے پر دستک دے رہی ہے مگر پھر سناٹا ہے ۔