’’ تحریک پاکستان کے دَوران !‘‘
معزز قارئین! مَیں اکثر اپنے کالموں میں پاکستانی قوم کو تحریک پاکستان کے دَوران مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں سِکھوں کے ہاتھوں 10 لاکھ مسلمانوں کی شہادت اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کے اغواء اور اُن کی عصمت ریزی کی یاد دلایا کرتا ہُوں۔ میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان لٹھ باز تھے جو سِکھوں سے لڑنے کے لئے ’’ مسلم نیشنل گارڈ‘‘ کو ’’ لٹھ بازی ‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔ سِکھوں کی دو ریاستوں نابھہ ؔ ۔ پٹیالہ ؔ اور ضلع امرتسر میں ہمارے خاندان کے 26 افراد سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ اِس لئے میری سِکھوں کے بارے کچھ اچھی رائے نہیں تھی۔
’’ عالمی پنجابی کانفرنس ! ‘‘
جب 4 دسمبر 2004ء کو مجھے ( اُن دِنوں ) وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پاکستان کے کئی شاعروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ بھارتی پنجاب کی ’’ پٹیالہ یونیورسٹی ‘‘ میں پنجابی کانفرنس میں شریک ہونا پڑا جہاں سِکھ شاعر وں ، ادیبوں ، صحافیوں اور دانشوروں کی ہاں میں ہاں ملا کر پاکستانی (اصحاب) بھی سِکھوں کی ’’سانجھا پنجاب‘‘ کی تحریک کی حمایت کر رہے تھے لیکن مَیں نے مخالفانہ تقریر کی اور وطن واپس آ کر اپنے پنجابی جریدہ ’’چانن ‘‘میں مسلسل اپنے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ۔
’’ گرو تیغ بہادر کا نام !‘‘
اگست 2011ء میں کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں گُور مُکھی ( پنجابی ) کے ہفت روزہ ’’ اجیت ‘‘ کے مالک (آنجہانی ) سردار درشن سنگھ بینس اور اُن کے برادر نسبتی سردار عجائب سنگھ چٹھہ کے زیر اہتمام ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ ہُوئی ۔ کانفرنس میں پنجاب کے کئی شاعر ، ادیب ، صحافی اور دانشور بھی شریک تھے ۔ اجلاس میں پنجابی کا (سانجھا ) جھنڈا لہرایا گیا اور ایک قرارداد منظور کی گئی کہ ’’ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کے دانشوروں کا ایک بورڈ بنایا جائے ، جو اتفاق رائے سے پنجابی زبان میں سے عربی، اُردو ، اور ہندی زبان کے الفاظ نکالنے کی سفارش کرے! ‘‘ ۔ اِس پر مَیں نے ستمبر 2011ء کے اپنے ’’چانن ‘‘ میں شہ سُرخی سے لکھا اور سِکھوں سے کہا کہ ’’ آپ کے نویں (9 ویں ) گرو ، گرو تیغ ؔبہادرؔ جی کا نام فارسی زبان میں ہے۔ اگر آ پ نے اُن کے نا م میں سے فارسیؔ زبان ترک کردیں گے تو، کیا اُن کی بے حُرمتی نہیں ہوگی؟‘‘۔
’’ شاعرِنظریۂ پاکستان !‘‘
معزز قارئین ! ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے 1962ء میں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کیا تھا اور جب مَیں باقاعدہ 1969ء میں لاہور شفٹ ہُوا تو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرا کالم چھپنے لگا ، خاص طور پر جب جولائی 1973ء میں اپنا روزنامہ ’’سیاست‘‘ جاری کِیاتوپھر مختلف اوقات میں بھی۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ’’20 فروری 2014ء کو ’’ ایوانِ کارکنان ِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں جنابِ مجید نظامیؒ کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں نظریاتی ثمر سکول کے میوزک ٹیچر ، جناب آصف مجید کی کمپوزنگ میں "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے میرا لکھا ہُوا ملّی ترانہ گایا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا اور جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں …
’’اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘
…O…
زُہرہ نگاروں ، سینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
یوں حُسنِ لازوال سے، رَوشن ہیں بستیاں!
جیسے کہ آسمان سے ،اُتری ہو کہکشاں!
تیرے فلک کے ،چاند ستاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
مٹی کا تری رنگ ، زَر و سیم کی طرح!
دریا رَواں ہیں ،کوثر و تسنیم کی طرح!
جنت نشان ،مست نظاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
دُنیا میں بے مثال ہیں ، ارباب فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صف شکن ترے!
شاہ راہ حق کے ،شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سو وفائوں کے سِلسلے!
مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے!
مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
…O…
معزز قارئین ! حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ پاکستان کے مختلف صوبوں پنجاب، ریاست آزاد جموں و کشمیر اور دوسرے صوبوں کی مادری زبانیں قابل احترام ہیں لیکن بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کے مطابق اُردوؔ ہماری قومی زبان ہے اور رہے گی ! ‘‘۔ پاکستانی پنجابی اپنے وطن میں ہوں یا وطن سے باہر کسی بھی ملک میں وہ، اپنی مادری زبان پنجابی سے محبت کرتے ہیں اور اپنی قومی زبان اُردوؔ سے بھی ! ‘‘۔ بہر حال مَیں پاک پنجاب کی بولی ؔ اور سِکھی بولی کے بارے ایک نظم پیش کر رہا ہُوں ۔ ملاحظہ فرمائیں …
وکھرّی پاک پنجاب دِی بولی وکھرّی ’’ سکھی بولی ‘‘
…O…
اِک مِک ، نئیں کر سکدا، کوئی گولا نہ ، کوئی گولی!
وکھرّی ، پاک پنجاب دِی بولی ، وکھرّی ’’ سِکھّی بولی‘‘!
…O…
جیہڑے ، سکھّاں ، مُسلماناں نُوں ، کہندے ’’ قوم پنجابی‘‘
عقلوں پَیدل ، کُوڑ مغزنیں ، سوچ ، اوہناں دِی ، بلولی!
…O…
جیکر ، پنجابی بولی دی ، سانجھ ، سِکھّاں نال ، ہوندی!
سن سنتالی وِچّ ، نہ کھیڈ دے ، ساڈے لہو نال ، ہولی!
…O…
کینیڈا ، امریکہ ، یُوکے ، پَیلاں پاندی جاندی!
’’ پنجابی جھنڈا‘‘ لہراندی ، مَنگتیاں دِی ، ٹولی!
…O…
کردے ، جُمعہ بازاراں وِچّ ، پنجابی کانفرنساں!
موڈھیاں اُتّے ، چُکّی پھر دے ، لوڑ وَندی دی ، ڈولی!
…O…
سِکھّ یاتری ، پنجہ صاحب ، ننکانہ ، جَد آئوندے!
اوہناں توں ، دانے ، منگ کے بَھر دے ، اپنی اپنی ، بھڑولی!
…O…
قائداعظمؒ نُوں مَندا، اقبالؒ نُوں ’’بالا‘‘ آکھن!
دُر فِٹّے مُنہ، اینہاں دا ، غَیراں دِی چُکّدے نیں، جھولی!
…O…
پشتو ، سِندھی، بلوچی، بولیاں نال ا، ایہہ، وَیر کماون!
اردو ، فارسی ، نُوں ، پھٹّ لاون، کچھّ وِچّ، رکھدے کرولی!
…O…
اپنے باغ ، بغیچیاں دِیاں ، خوشبواں نُوں ، چھڈّ کے!
چکّڑ وِچّ ، یسار یسارن ، جِیویں بھیڈ ، جھنڈولی!
…………………… (ختم شد)
بھاویں شرِیکا ، رَوہ الاوے ، بھاویں کچیچی وٹّے!
اثرؔ چوہان ، حقّ سچّ دا بندہ ، گلّ نئیں کردا ، پولی!
(ختم شد)