انقرہ سے قونیا کی جانب سفر کا فیصلہ کیا تو خوش قسمتی سے ہمیں فاسٹ ٹرین میں سیٹ مل گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساڑھے تین گھنٹوں کا سفر ہم نے ایک گھنٹہ میں ہی طے کر لیا۔ پایہ تخت قونیا جسے ’’دلوں کا شہر‘‘بھی کہا جاتا ہے سلطنت عثمانیہ اور تاریخ ترکیہ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کردنیا میں اس کو مولانا جلا ل الدین رومی ؒ اور ان کے مرشد شاہ شمس تبریزی ؒ کی وجہ سے خاص مقام حاصل ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے قدیم ترین اور ہم شہروں میں ایک ہے۔اس وقت قونیا ایک صنعتی شہر ہے لیکن مصروف ترین زندگی کے باوجودمولانا جلال الدین ؒ کی خانقاہ کے آس پاس مراقبہ کا سا سکوت ملے گا۔سلجوک سلطنت کے سلطان علاؤالدین کیکوباد کا دارالحکومت بھی رہا اسی شہر میں ان کی جانب سے تعمیر کردہ قلعہ موجود ہے جہاں احاطہ میں سلطان اور ا س کے خاندان کی قبریں بھی موجود ہیں۔ قلعہ کی دیواروں پر تاریخ کے مختلف واقعات درج کیے گئے ہیں۔سلجوک سلطنت کے زوال کے وقت سے ہی اس شہر پر منگول قابض رہے اور بعدازاں یہ عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا، سلطنت عثمانیہ کے دور میں سلطان فاتح مہمت نے دوبارہ سے اس شہر کو فتح کرکے اپنی ریاست میں قونیا اب جدید شہر بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود مولانا جلال الدین ؒ کی نسبت سے پورے شہر سے آپ کو تصوف کا ایک خاص رنگ اور خوشبو ملے گی۔ پہلی فرصت میں ہم نے مولانا کے دربار پر حاضری دی۔ سنہرے گنبد تلے مولانا کے مزار پر دنیا بھر ساے زائرین کی بڑی تعداد دن بھر موجود رہتی ہے۔ اندر جانے کے لیے جوتیاں اتارنے کی بجائے ان پر پلاسٹک کے بنے ہوئے کور چڑھا لیے جاتے ہیں جو مزارسے داخلے سے پہلے آپ کو مل جاتے ہیں اور اندر داخل ہوتے ہی دل میں عقیدت و محبت کے جذبات کا ایک نیا در کھل جاتا ہے۔ یہ سب اس شخصیت کے لیے ہے جس نے انسانیت کے لیے بلخ سے سفر کیا اور قونیا پہنچ کر تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا جہاں انہیں شاہ شمس تبریزی کی شاگردی میں تصوف کے کمالات سیکھنے کا موقع ملا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو مولانا سے ایک خاص عشق تھااسی لیے وہ خود کو مرید ہندی اور مولانا کو پیر رومی کہا کرتے تھے۔ اسی تعلق کو دیکھتے ہوئے مولانا کے مزار کے ساتھ ہی علامہ اقبال کی ایک یادگاری علامتی قبر بھی تعمیر کر دی۔ مولانا جلال الدین سے منسوب ایک فرمان ہے کہ ’’اللہ سے محبت کے بہت سے طریقے ہیں لیکن میں نے ان سب سے پسندیدہ طریقہ اس کی مخلوق سے محبت کرنے کو چنا‘‘۔ مولانا کے دور میں درویش ایک خاص قسم کا رقص کیا کرتے تھے جس میں ایک مخصوص حلقے میں اس طرح گھوما جاتا تھا کہ ایک ہاتھ آسمان کی طرف کچھ لینے کے لیے اور دوسرا ہاتھ نیچے کی طرف جیسے کسی کو کچھ دیا جارہا ہو کے انداز میں رکھا جاتا ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ مولانا ایک ہاتھ سے اللہ سے لیتے تھے تو دوسرے ہاتھ سے تقسیم کر دیتے تھے۔ قونیا کے بازار اور گلیاں وہی تھیں جہاں مولانا جلا ل الدین لوگوں کی محبت میں اور دلوں کے زنگ اتارنے کے لیے نکلا کرتے تھے اس لیے قونیا کی ہر گلی میں ایک خاص قسم کی انسیت پائی جاتی ہے جس کو اہل عشق ہی سمجھ سکتے ہیں۔
سلجوک یونیورسٹی یہاں کی سب سے مشہور یونیورسٹی ہے جہاں پاکستان سے آئے تقریباً درجن طلبائ تعلیم کے حصول کے لیے موجود ہیں۔ جنوبی پنجاب سے ڈاکٹر معیز یہاں ہمارے میزبان تھے۔ ترکیہ میں پہنچے تیرہ دن ہو چکے تھے اور تیرہ دن بعد ڈاکٹر معیز نے ایک مزیدار تیز مصالحوں والی بریانی اور پھر اس کے بعد پاکستانی چائے پلا کر یہ احساس دلایا کہ ہم دیار غیر میں ہیں اورگزشتہ کئی دنوں سے پھیکے کھانے کھا نے کے بعد پھر سے روایتی پاکستانی کھانے کے ذائقہ سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے شہر سے نکل کر ہم نے استنبول کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ یہیں سے برصہ پہنچے جہاں سلطنت عثمانیہ کے بانی سردار عثمان بے اوران کے صاحبزادے اورحان غازی کے مزار پر حاضری دی۔ استنبول سے فیری کے ذریعے برصہ تک پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگا، مرمرا سمندر میں پرسکون لہروں اور نیلے پانی کے اندر کیا جانے والے یہ سفر بھی زندگی کا یادگار سفر بن گیا۔ سردار عثمان غازی کے مزار پر پہنچے تو وہاں سلطنت عثمانیہ کے روایتی لباس پہنے گارڈ روایتی انداز میں پریڈ کر رہے تھے انہیں دیکھ کر پاکستانی ٹی وی چینل پر ارطغرل ڈرامہ کے کئی مناظر آنکھوں کے سامنے آگئے۔ترکی نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والی غازی ارطغرل کی زندگی پر ڈرامہ بنایا تو دنیا بھر میں پہلی دفعہ ترکش فلم انڈسٹری کا تعارف ہوا۔ یورپ سمیت دنیا بھر میں بالعموم اور مسلم ممالک میں بالخصوص اس ڈرامہ کو اس قدر پذیرائی ملی کہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ استنبول میں جامع مسجد آیا صوفیہ، گرینڈ بازار، تقسیم سکوائر سمیت کئی جگہوں پر جانے کا اتفاق ہوا۔ سلطان محمد فاتح ؒ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ استنبول میں گریجوایشن مکمل کرنے والے عبداللہ کی ہمراہی میں ترکیہ کی نوجوانوں کی تنظیم کی جانب سے اپنی تعلیم مکمل کرنے والے بین الاقوامی طلباء کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا جہاں بھارت اور پاکستانی طلباء سے بھی ملاقات ہوئی۔ استنبول میں نوجوان عبداللہ زبیر میر ہمارے میزبان تھے۔ اس طرح ڈاکٹر ندیم صدر پاکستان سولیڈیریٹی فورم کے ساتھ ملاقاتیں رہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے استنبول میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندیم کی ترکیہ میں پاکستان اور ترکی کی کمیونٹی کے لیے بیش بہا خدمات ہیں اور وہ ہمیشہ پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کی خدمت، رہنمائی اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے متحرک رہتے ہیں۔ انہوں نے استنبول قیام کے دوران محبت اور شفقت کا جو مظاہرہ کیا وہ ناقابل فراموش تھا اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود وہ ہماری رہنمائی کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہتے تھے۔پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں لیکن جس طرح وہ جسمانی امراض کے علاج کے خاتمہ کے لیے مصروف رہتے ہیں اسی طرح وہ نوجوانوں کی روحانی تربیت کے لیے بھی فکر مند اور مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ ترکیہ معاشرے کے لیے وہ انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ استنبول میں تین دن گزارنے کے بعد ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو رہا تھا اگرچہ محسوس یہی ہورہا تھا کہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف واپسی ہو رہی ہے لیکن ظاہر ہے اپنی مٹی کی خوشبو کا مقابلہ کیسے ہو سکتا ہے، پاکستان کی محبت پر کسی اور کی محبت کا غلبہ ممکن نہیں۔اس لیے اسلام آباد کی سرزمین پر پہنچتے ہی محبت، اپنائیت کا بھرپور احساس جسم کے ریشے ریشے میں سما گیا۔ اے سرزمین سلطنت عثمانیہ کے باسیو! سلامتی ہو تم سب کے لیے کہ پاک سرزمین کے رہنے والے ماضی میں بھی تم سے پیار کرتے تھے اوراب بھی بے لوث محبت اور ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں۔