تباہ کن سیلاب یا مواصلاتی سیاروں کی سازش ؟

Sep 26, 2022

آفات آسمانی یعنی طوفان ، زلزلہ، سیلاب بیماریاں وبائیں ، طاعون، سونامی ، سائیکلون وغیرہ اس دنیاوی زندگی کا حصہ ہیں اور مقدس ترین ادوار میں بھی ان کے واقع ہونے کے شواہدملتے ہیں یہ دنیا کے مختلف حصوں میں ظاہر ہو کر قدرت کے ہاتھوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ اس میں ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملکوں کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہاں البتہ معاشی ، اور معاشرتی وسائل کی حدود سے ترقی یافتہ ملک ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہتر طریقے سے ان مسائل سے نپٹ لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے ان آفات سے بہتر طریقے سے نپٹ لینے کے پیچھے ان ممالک کا ٹیکس کا نظام ہوتا ہے جو کہ ان ممالک کی معیثیت کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیتا جبکہ ہمارے یہاں مجبوروں کے علاوہ کوئی بندہ ایک روپے بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہے لیکن صبح صبح تین اخباریں خرید کر سارا دن حکومت وقت پر تنقید کرنا اپنا مذہبی فرض سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ ہم آئے روز کی قومی زندگی میں پوری دنیا کے سامنے بھگت رہے ہیں ٭پاکستان میں ہم تقریباََ ہر دس سال بعدیعنی 1992،2000 ، 2010 اور اب 2022سیلاب کو بھگت رہے ہیں . نہ جانے کیوں مجھے یقین نہیں آتا کہ مغربی ملکوں کے بنایا ہوا موسمیاتی تبدیلی پروپیگنڈا ہے۔یا پھر پڑوسی دشمن ممالک کی مصنوعی سیاروں کے ذریعے کی جانے والی سازشی شرارت ہے۔ یہ موسمیاتی مہربانیاں صرف پاکستان میں کیوں آرہی ہیں پڑوسی ملکوں چین ، افغانستان ،ایران ،انڈیا میں کیوں نہیں ؟کافی عرصہ قبل ایک سائنس دان کا دعویٰ نظروں سے گزرا تھا کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے ساتھ زمین پھیل رہی ہے کہ جس کی وجہ سے زمین کے آتشی اور پرسکون زمین میں بھی مختلف تبدیلیاں ظاہر ہوتی رہتی ہیں ۔ صدیوں پہلے مشہور مسلمان مفکرو سائنس دان البیرونی نے قلعہ نندنہ (ضلع چکوال) میں تحقیق کے بعد زمین کے سائز کا جو نظریہ پیش کیا تھا ۔ آج مصنوعی سیاروں کے ذریعے پیمائش اسکے دعویٰ سے صرف16میل زیادہ ہے ہو سکتاہے اپنے اپنے وقت کے تناظر میں دونوں صحیح ہوں ۔خلیفہ  دوم سید حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد مبارک تک مصرمیں بپھرا ہواسیلابی دریائے نیل ہر سال ایک جوان لڑکی کی قربانی کے بعد پرسکون ہوتا تھا حاکم مصر کے امیرالمومنین ؓ کے ایک خط کو دریا میں پھینکنے کے بعد دریا نیل پر سکون ہو گیاخط میں فرمان مبارکہ تھا کہ اے نیل! اگر تو اپنی مرضی سے بہہ رہا ہے تواسی طرح بہتا رہ ،اگر اللہ کے حکم سے بہہ رہا ہے تو پر سکون ہو کر بہتا رہ دریائے نیل آج بھی پرسکون بہ رہا ہے نرم زمین صحرائی علاقوں میں کروٹ لیتی ہے شواہد ہیں  میدانی دریا ہر 62سال کے بعد اپنے پاٹ میں دائیں یا بائیں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے دریائے راوی کے مختلف پاٹ کے جائزے سے دریا کے کروٹیں بدلنے کی شہادت ملتی ہے شہنشاہ جہانگیر کے عہد میں دریائے سندھ نے اچانک اپنا پاٹ بدل کر اس وقت کے آدھے کلورکوٹ (موجودہ ضلع خوشاب) کو نگل لیا تھااب سیلابی ایام میں جیسے جیسے سمند ر کے قریب چلتے جائیں گے آگے خراب حالات آتے جائیں گے۔ کیونکہ زیادہ پانی ہونے کے باوجود بھی دریانے اپنے پیٹ سائز اور رفتار کے مطابق ہی پانی کو آنے کی اجازت دینی ہے کیونکہ اس طرح سمند ر نے بھی اپنے قدرتی پیٹ اور بہائوکے مطابق پانی کو اپنے اندر آنے کی اجازت دینی ہے۔ حالات کے اتنے خراب ہونے کی یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم نے سمندر کو اپنا تابع سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ کہ وہ پہلے سے چھ سو گناہ زیادہ پانی کو بھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہضم کر ے اور یہ ناممکن تھا ،ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ سیلاب آفت بلائے ناگہانی کی طرح آیا قوم کے ایک کثیر طبقے کی جان ومال عزت آبرو کو بربادکر ڈالا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بین الاقوامی برادر ی نے ہماری بہت مدد کی ہے لیکن اتنے بڑے ہیبت زدگان کے ساتھ ہمدردیاں ہمیشہ یکساں نہیں رہتی وقت کے ساتھ ساتھ جذبات ٹھنڈے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ لمبے مریض سے ہر کوئی تنگ آ جاتا ہے سوائے ماں کے ۔اور اگر کوئی سسٹم مستقبل ترتیب نہ دیا جائے تو آخر میں مصیبت زدگان اور حکومت وقت یعنی اپنی دھرتی ماںہی سنبھالتے ہیں٭ ملک میں اس وقت 21کروڑ کے قریب موبائل سم زیر استعمال ہے ۔ اگر صرف ایک روپیہ فی سم روزانہ ٹیکس لگا دیا جائے توریاست کو ماہانہ تقریباََ 6ارب ر وپے ان وسائل سے نبٹنے کے لئے مستقل طور پر حاصل ہو سکتے ہیں ۔ ٭دریائوں میں پانی چھ سو گنا آیا ہے جبکہ سارے دریا اپنے معمول کی رفتار سے سمندر میں خارج کر رہے ہیں۔دریائوں میں سمندر میںحالات واقعات کے مطابق تیز ترین اخراج کا سسٹم بنانا چاہیے۔ اس طرح کراچی کے ندی نالوں کے سمندر میں داخلہ کے مقام پر سسٹم کو پمپ لگا کر تیز ترین اخراج کرکے کراچی اور سارے ملک کو سیلاب سے بچایا جا سکتا ہے۔ (ڈیزائن میں دے سکتا ہوں )٭پشاور سے کراچی تک دریا ئے سندھ کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت چیک ڈیم بنائیں جائیں تاکہ سیلابی صورتحال میں فالتو پانی کا اخراج ادھر موڑ دیا جائے۔ ٭(بنگلا دیش کی طرح )مناسب ترین محل وقوع پر دریا کے ساتھ ساتھ تقریباََ ایک ایکٹر رقبے کے دس منزلہ کنکریٹ سٹریکچر کے پلازہ بنا دیئے جائیں جن کی چھت پر ہیلی پیڈ بنا دئیے جائیں تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں خوردونوش وغیرہ سپلائی کے لئے ہیلی کاپٹرپلازے پر اتر سکے۔ 
ان پلازہ جات کو ڈیزاسٹر اتھارٹی کے کنٹرول میں دیا جائے٭ عام معاشرتی زندگی میں ان کے دیگرعام استعمال کی اجازت ہو کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت میں یہ متاثرین کے لئے بہت مضبوط معاشرتی سہار ا ثابت ہونگے٭ دریائوں کے آس پاس تعمیرات کرنے والوں کی امداد اس سے مشروط ہوں کہ نئے تعمیر ہونے والے مکانوں کا فرش سطح زمین سے کم ازکم چار فٹ بلند ہو ورنہ اگلے سال ہی مکانات پھر سیلاب میں ڈوبے پائے جائیں گے٭ بندر گاہوں پراستعمال ہونے والے شیڈ کے اندر تقریباَََ تین سو فٹ تک لمبے دوستونوں والے گارڈز کو استعمال کر کے تمام موزوں جگہوں پر دریائوں ندی نالوں کو کراس کرنے کے لئے مستقبل کیلئے عوامی پل بنائے جا سکتے ہیں٭تمام پلو ں کے تباہ ہونے کی بنیادی وجہ ڈیزائن او رٹھیکیدار کی کوتاہی ہے۔ ٹھیکیدار اور ادارے ملی بھگت سے ڈیزائن کے مطابق پل تعمیر نہیں کرتے پل کے ستون ڈرلنگ کے وقت نیچے کسی چٹان پر رکھے جاتے ہیں جبکہ ملی بھگت سے صرف بیس تیس فٹ گہرا بور کر کے اتنی ہیوی پل کا سٹریکچر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہر پل کے ساتھ دریا کی سمت کے ساتھ ڈھلوانی دیوار بنانی ضروری ہوتی ہے تمام پلر ز کو متوازی طور پر باہمی کنکریٹ دیوار کے ذریعے ملایا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن ۔۔۔؟ ان ہی غفلتوں کی وجہ سے اتنے اہم کاغذی پل سیلاب کو برداشت نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ ٹھیکہ دینے والے ادارے مستقبل میں اسی ادارے میں آنے والوں کے لئے دال روٹی کا بندوبست کر کے جاتے ہیں اب سیلاب میں ٹوٹنے والے پلوں کی وجہ سے بہت سے اداروں اور ٹھیکیداروں کی لمبے عرصے کی دال روٹی کا بندوبست کر دیا ہے ۔رواج کے مطابق دنیا کے جذبات اور ہمدردیاں آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہونی شروع ہو چکی ہیں اب ہم ہیں اور ہمارے کمزور وسائل ۔بہترہے میری تجویز کے مطابق مستقل موبائل سم آمدن شروع کر لیں۔

مزیدخبریں