اسلام آباد میں خواتین قتل کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں کئی بار لڑکیوں اور خواتین کی مسخ شدہ نعشیں پولیس نے مختلف علاقوں سے برآمد کی ہیں راول ڈیم سے بھی کافی مرتبہ لڑکیوں کی نعشیں ملی ہیں سوال یہ ہے کہ حوا کی بیٹی شہر اقتدار میںکیوں غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے اسلام آباد نہ کوئی عام اور پرانا شہرہے نہ اسے پسماندہ علاقہ کہتے ہیں کہ اس میں انفراسٹرکچر نہ ہو یہ شہر 1960ئ میں باقاعدہ ایک ماسٹر پلان اور ایک وسیع و عریض آبادیوں کو ہموار کرکے ڈیزائن کیا گیا تھا جس میں بہترین پلاننگ سے اس شہر کی نوک پلک ترتیب ہائی تھی ہر سیکٹر چار سب سیکٹروں پر مشتمل رکھا گیاشاپنگ مراکز بنے 1980 تک اسلام آباد پنجاب پولیس کی ڈومین میں تھا لیکن 1981 میں وفاقی پولیس وجود میں آئی جس کے پہلے آئی جی اسلام آباد ملک محمد نواز مقرر ہوئے تھے انہوں نے سی ڈی اے کے ساتھ دن رات کی محنت سے تھانہ آبپارہ کے علاوہ دیگر تھانے بنوائے کیونکہ تھانہ آبپارہ پولی کلینک کی پہلی عمارت تھی جب پولی کلینک اپنی موجودہ عمارت میں شفٹ ہوا تو پنجاب پولیس نے اسے اپنی فورس اور استعمال کیلئے اپنے پاس رکھ لیا تھا نئے تھانوں کے نام رکھے گئیاور وفاقی دارالحکومت میں ایک منفرد طرز کی پولیسنگ تشکیل دی 9 تھانے آبپارہ،کوہسار ،مارگلہ ،سیکرٹریٹ ،بھارہ کہو ،سہالہ ،گولڑہ ،ترنول ،آئی نائن بنا کر نئی بھرتیاں کی گئیں پہلی بار اسلام آباد میں رینکرز کی بجائے پروبیشبرز نوجوان ایس ایچ اوز لگائے گئے جن میں جمیل ہاشمی، فرحت عباس کاظمی، گلفام ناصر وڑائچ، زبیر شیخ، احمد اقبال، ادریس راٹھور، مسرت خان ، حبیب اللہ نیازی، حفیظ بلوچ شامل تھے اسلام آباد پولیس کو دیگر صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں ماڈل پولیس کادرجہ دیا گیا جس کی یونیفارم بھی دوسرے صوبوں کی پولیس سے الگ رنگ کی بنائی گئی اس ساری ایکسر سائز کا مقصد اسلام آباد کو پرسکون شہر بنانا تھا جس میں شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہوبہترین پولیسنگ معرض وجود میں آئے اسلام آباد میں 24 دسمبر 1994 کو تھانہ مارگلہ کے علاقے میں معروف شاعرہ پروین شاکر ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئیں تو اسلام آباد پولیس کیلئے وہ بہت بڑا دھچکا تھا کی اس کی مرکزی شاہراہ ہر ٹریفک کی بدنظمی سے ملک کی بڑی شاعرہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئیں بعد میں اسی تھانے کے سیکٹر ایف ایٹ تھری کی رہائشی انینا عزیز کی گردن کٹی نعش ملنے پر کہرام مچا اور پولیس نے بعد میں مقتولہ کا سر فیصل ایونیو کے سفاری پارک کے قریب سے برآمد کیا یہ توقع ہوگئی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے حالات بہتری کی جانب جائیں گے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا اور گزشتہ سال وفاقی دارالحکومت کے پوش ایریا ایف سیون فور میں سابق سفارتکار شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کو ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے اپنے گھر میں نہ صرف بیدردی سے قتل کیا بلکہ سر بھی جسم سے کاٹ کر الگ کردیااوراب 23 ستمبر کو تھانہ شہزاد ٹائون کے علاقے چک شہزاد کے فارم ہاؤس 46 میں ایک اور بیٹی سارا نعیم اپنے شوہر شاہنواز امیر کے ہاتھوں قتل ہوگئی جس سے شہر کی فضاء سوگوار ہوگئی بہو کے قتل کی اطلاع کے حوالے سے سینئر صحافی ایاز امیر نے پہلے ردعمل میں کہا اللہ تعالیٰ کسی کو ایسا وقت نہ دکھائے، چک شہزاد کے پرسکون فارم ہاؤس میں ابوظہبی سے آئی ایک نوبیاہتا دلہن کا قتل اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے پولیس نے ملزم گرفتار کرلیا اقبال جرم بھی ہوگیا آلہ قتل جم کا ڈمبل پولیس نے تحویل میں لے لیا فرانزک ٹیم نے شواہد بھی حاصل کرلئے302 کی ایف آئی آر میں باہم مشورے کی دفعہ 109 کا بھی اضافہ ہو گیا لیکن ایک ہنستی مسکراتی جوانسال لڑکی ہی نہیں اس کی زندگی کے وہ سارے خواب اور ارمان بھی دم توڑ گئے جو اس نے اپنی نئی ازدواجی زندگی کے لئے دیکھے ہوں گے وفاقی پولیس شہریوں کو کسی بھی ایمرجنسی صورتحال میں 15 پر کال کرنے کی بے پناہ ترغیب دیتی ہے لیکن 15 سے اس وقت شہریوں کی بے پناہ شکایات ہیں شہریوں کی شکائت ہے کہ 15 پر کال اٹینڈ نہیں ہوتی جبکہ 15 کال کی سپرٹ یہ ہے کہ کال آ گئی ہے بس اب پولیس کال کرنے والے کی مدد کے لئے اس کے پاس پہنچ جائے جب ایسا نہیں ہوتا تو اس سے پولیس کا امیج بھی بہت زیادہ خراب ہوتا ہے پولیسنگ میں آرکیسٹراہم آہنگ ہونا پہلی ترجیح رہنی چاہیے ریسکیوون فائیو کو سیف سٹی میں منتقل کرنا کوئی احسن اقدام نہیں جہاں شہریوں کی پہنچ ہی نہیں ریسکیوون فائیو کو واپس جی ایٹ میں اس کے اصل مقام پر لانا چاہئے تاکہ شہری اور ون فائیو ایک دوسرے کے قریب ہوں اس سے شہریوں میں تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے اسلام آباد میں ریسکیو ون فائیو کے بانی سابق آئی جی پولیس ناصر خان درانی نے بڑی مشکل اور محنت سے یہ ادارہ شہریوں کے درمیان بنایا تھا تاکہ ہر کال کرنے والا آتے جاتے اپنی شکایت کے بارے میں پیشرفت کا بھی پوچھ سکے ون فائیو عوام کو جوابدہ ادارے کے طور پر بنا تھا تاکہ کمیونٹی پولیسنگ فروغ پائے لیکن ون فائیو کو شہریوں کی نظر ہی سے اوجھل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پہنچ سے بھی دور کر دیا گیا ہے کچھ بعید نہیں اور یہ ہو سکتا ہے کہ نور مقدم اور سارا نعیم نے بھی اپنے مشکل ترین لمحات میں ریسکیو ون فائیو کال کی کوشش کی ہو اور وہ پولیس مدد سے محروم رہ گئی ہوں جس سے اسلام آباد میں یہ دو بڑے المیئے سامنے آگئے .