ایک سبق آموز اورعبرت ناک واقعہ 

 انسان کوجیسے ہی اپنی زندگی میں عروج حاصل ہوتا ہے تو بیشتر لوگ اپنی اوقات ہی بھول جاتے ہیں، انہیں نہ مرنا یاد رہتا ہے اور نہ قیامت کے دن اپنے خالق کے سامنے پیش ہونےوالے وہ لمحات یاد رہتے ہیں جہاں انسانوں کے اعمال کو ترازو میں تولا جائے گا ۔ وہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی اور نہ ہی کوئی عزیز رشتہ دار مدد کو پہنچے گا ۔ وہاں صرف اور صرف اپنے اعمال کام آئیں گے جو دنیا میں رہتے ہوئے اس نے کیے ہونگے ۔یہ عہدے اور کرسیاں دنیا میں ہی رہ جاتی ہیں ،قبر میں اترتے ہی انسان اپنا نام اور کام کھو بیٹھتا ہے سب اسے میت کے نام سے پکارتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک عبرت ناک واقعہ میری نظر سے گزرا ۔ میں نے سوچا جس واقعے نے مجھے اپنا گریبان دیکھنے پر مجبور کیا ہے کیوں نہ زمین پر رہنے والے نا خدا¶ں کو یہ واقعہ یاد دلا¶ں کہ انسان کا ہر عمل اس کی آخرت سنوارنے اور برباد کرنے کو موجب بنتا ہے ۔ یہ واقعہ میں اپنے قارئین سے شیئر کرنے کی جسارت کررہا ہوں"-:ملک غلام محمد (سابق گورنر جنرل) کی قبر آج بھی گورا قبرستان میں موجود ہے، جو کراچی میں عیسائیوں کا مشہور قبرستان ہے، ہوا کچھ یوں کہ یہ سابق گورنر جنرل 12 ستمبر 1956ءکو لقوا، بلڈ پریشر اور فالج کے مرض کے ہاتھوں61 سال کی عمر میں لاہور میں فوت ہوا تھا ، اس کی وصیت تھی ، کہ مرنے کے بعد اسے سعودی عرب میں دفن کیا جائے، لہٰذا لاہور سے کراچی لاکر اس کی لاش کو امانتاً گورا قبرستان میں دفن کر دیا گیا، پھر کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق اس کی نعش کو سعودی عرب منتقل کرنے کے لئے، ایک فوجی افسر، ایک ڈاکٹر، کچھ پولیس اہلکار ، دو گورکن ، اور اس کے قریبی رشتے داروں کے سامنے جب قبر کو کھولا گیا، تو وہ لوگ یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے ، کہ سابق گورنر جنرل پاکستان کے تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگا رہا ہے، گورکن نے اس سانپ کو لاٹھی سے مارنے کی جتنی بار بھی کوشش کی، ہر بارسانپ اس کے وار سے بچ جاتا تھا، پولیس انسپکٹر نے اپنے پستول سے چھ کی چھ گولیاںسانپ پر داغ دیں ، مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگ سکی، پھر وہاں موجود ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سانپ کو مارنے کے لئے قبر میں زہریلا سپرے کیا گیا ، دو گھنٹے کے بعد جب دوبارہ قبر کھولی گئی، تو سانپ اسی طرح قبر میں زندہ موجود تھا، اور سابق گورنر جنرل کے تابوت کے گرد چکر لگا رہا تھا،پھر باہمی صلاح مشورے سے اس عبرتناک قبر کو بند کر دیا گیا، اور اگلے روز ایک مشہور مقامی اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی، کہ سابق گورنر جنرل کو سعودی عرب منتقل نہ کیا جاسکا، اور اب وہ یہیں کراچی کے گورا قبرستان میں ہی دفن رہیں گے، قارئین کرام!!! اس گورنر جنرل کو مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ کیوں نہ مل سکی؟ یہ بھی ایک عبرتناک حقیقت ہے، اس شخص نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے قادیانیوں کو خوش کرنے کے لئے، 1953ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران تقریباً کئی ہزار مجاہدین کو لاہور میں شہید کروا یا تھا، اس نے قادیانیوں کو نوازنے کے لئے تمام قانونی اور اخلاقی حدیں پار کر ڈالیں، جس کے نتیجے میں اس کی قبرعبرت کا نشان بن چکی ہے، ”الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اورصحیح العقیدہ بھی ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ﷺ ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔اگر اس کے باوجود کوئی سرپھیرا انسان نبوت کا دعوی کرتا ہے تو وہ میری نظر میں واجب القتل ہے ۔ہم نہ پہلے مرزائیت کو مانتے تھے اور نہ اب مانتے ہیں ۔ہم پیروکار ہیں مجید نظامی مرحوم کے ۔ جنہوں دو ٹوک الفاظ میں قادیانیت کو نہ صرف رد کیا بلکہ اپنے اداریے (نوائے وقت ،اداریہ 29جون 1974ئ) میں واضح طور پر لکھا کہ مرزائی نوائے وقت سے برابری کے سلوک کی امید نہ رکھیں ۔نوائے وقت ان مرزائیوں کا ترجمان نہیں ،بلکہ سواد اعظم کا اخبار ہے ۔اس اخبار کا عقیدہ بھی وہی ہے جو سواد اعظم کا عقیدہ ہے ۔اس عقیدے کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں اسی عظیم اور نظریاتی اخبار کا کالم نگا ر ہوں جس نے نہ صرف قادیانیت کے فتنے کی ہر لمحے نفی اور مذمت کی بلکہ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور ان تمام اکابرین میں نوائے وقت بھی اپنے قائدین سمیت شامل ہے جنہوں نے قیام پاکستان کی عظیم جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا ۔قصہ مختصر یہ کہ آج بھی کچھ لوگ اپنی آخرت کو بھول کر قادیانیت کے فروغ میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ،انہیں گورنر جنرل غلام محمد اعمال ، کردار اور قبرکی اندورنی حالت سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے وگرنہ ان کا انجام بھی غلام محمد جیسا ہی ہوگا۔
بدقسمتی سے ابتداءہی میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد حکومتی ایوانوں پر ایسے ایمان فروش لوگوں کا قبضہ رہا جنہوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے قادیانیت کے فتنے کی پرورش اور افزائش کرتے رہے ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...