سیاسی عداوت اور اداروں کاکردار

سیاست اورجمہوریت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہی جمہوریت کا حسن ہے ہر ملک اور معاشرے میں سیاست کرنے اور اسے آگے بڑھانے کا ایک اپنا انداز اور معیار ہوتاہے جس طرح پاکستان میں آج تک صحیح معنوںمیں جمہوریت ہی پنپ نہیں سکی اسی طرح یہاں سیاست میں اقدار اور معیار میں نمایاں کمی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں سیاست ذات کے گرد گھومتی ہے جس میں ذاتی حملے، اخلاق سے گری ہوئی گفتگو جھوٹے الزامات اورکردار کشی معمول کی باتیں ہیں۔ کسی کی ذات پر کیچڑ ، جھوٹے الزامات اور کردار کشی معمول کی باتیں ہیں، اور چونکہ یہاں ہتک عزت کے قوانین کو اہمیت نہیں دی جاتی لہٰذا لوگ الزام لگانے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح سیاسی مخالفین پر جھوٹے مقدمات بناکر جیلوںمیں ڈالنا بھی ہمارے ہاں ایک عام سی بات ہے۔ ان مقدمات کا بنیادی مقصد سیاسی مخالفین کو ڈرانا، دھمکانا اور تکلیف دینا ہوتاہے تاکہ دوسروں کو بھی ڈرایاجاسکے اور مخالفین میں ایک خوف کی فضا پیدا ہو۔ عدالتی نظام اس قدر پستی کا شکارہے کہ انسان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور اس وقت تک وہ جیل میں ہی پڑا رہتاہے جب بالآخر رہاہوتاہے تو اس کی زندگی کے وہ قیمتی سال جو وہ بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں گزارتاہے وہ ظاہر ہے کوئی واپس نہیں دلواسکتا۔ اس دوران کردار کشی کی صورت میں اٹھائی جانے والی اذیت کا توکوئی حساب ہی نہیں۔
اس پورے ماحول میں بعض ادارے جوکہ قومی ادارے کہلاتے ہیں اور جس کا بنیادی مقصد ریاست کی مضبوطی اور استحکام کیلئے کام کرنا ہوتاہے وہ بھی اس سیاسی عداوت کو آگے بڑھانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں نیب، ایف آئی اے، پولیس اور آئی بی جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ نیب کا ادارہ جس کا بنیادی مقصد ہی ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے وہ بھی اپنے اختیارات سے تجاوزات کرتے ہوئے اس سیاسی انجینئرنگ کا روح رواں بنتا نظرآتاہے اس ادارے نے عموماً اپنے اختیارات سے تجاوز کیاہے، سیاسی مخالفین پر حکومت کی ایماء پر مقدمات بنائے جاتے ہیں انہیں جیلوںمیں بندکیاجاتاہے مگر بعد میں کچھ نہ ثابت ہونے کی بناء پر پھر انہیں رہا کر دیا جاتا ہے، گزشتہ حکومت کے دور سیاسی نفرت اور عداوت کی بناء پر مخالفین کے خلاف نیب کو بھرپور طریقے سے استعمال کیاگیا جس کی وجہ سے اس کا نام بہت بدنام ہوا، بہت سے لوگوں کی زندگیاں اس ادارے نے تباہ کردی ہیں جب کیس عدالت میں جاتاہے تو عدالت ثبوت مانگتی ہے جوکہ دیئے نہیں جاتے بلکہ تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ کیس التواء کا شکار ہوتا رہے اور مقصود شخص اذیت کا شکاررہے۔میاں نوازشریف اور مریم نواز کا کیس اس سلسلے کی ایک بہترین مثال ہے جہاں نیب نے صرف حکومت کی ایماء پر ایسے کیسز بنائے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں تھا پھر ان کیسزکی بنیاد پر دونوں کو سزائیں دلوائی گئیں تاکہ انہیں سیاست سے دور رکھاجائے اور کردار کشی کے ذریعے بدنام کیاجائے۔ اب جب ان سزائوں کے خلاف اپیلیں عدالت میں زیرسماعت ہیں تو روزانہ نیب کو عدالتوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے کیونکہ عدالت بار بار ثبوت مانگتی ہے جبکہ نیب پراسیکیوٹر ثبوت نہ ہونے پر صرف التواء مانگتاہے، کیس گزشتہ تین سال سے عدالت میں زیرسماعت ہے جبکہ عدالت نیب کو مسلسل وقت دے رہی ہے ثبوت پیش کرے مگر نیب ایسا کرنے سے قاصرہے۔
اگرفاضل عدالت کے ریمارکس دیکھئے جائیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک شخص اور اس کے خاندان کو صرف مفروضوں کی بناء پر سزا دلوائی گئی ہے اور اب جب اعلیٰ عدالت ثبوت مانگ رہی ہے تو نیب کی طرف سے مسلسل خاموشی ہے، اس طرح کے طرزعمل سے التواء تو لیاجاسکتاہے مگر انصاف کے بالاخر حصول کو روکانہیں جاسکتا۔ گزشتہ دنوں کی سماعت کے دوران توعدالت نے اس کیس کی بنیاد پر ہی سوالات اٹھادیتے ہیں جس سے معاملہ مزید گھمبیر ہوگیاہے۔اس طرح گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال کو بھی ناروال سپورٹس سٹی کمپلیس کیس میں باعزت بری کردیاہے، احسن اقبال جن کی دیانت، محنت، قابلیت اور شرافت کی دنیا قائل ہے ان پر صرف سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ایک جھوٹا کیس بنایاگیا جس کی دنیا جہاں میں اس وقت بھی مذمت کی گئی، احسن اقبال صاحب نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر وفاقی وزیرمراد سعید کو چیلنج کیاتھا۔ یہ ایک صریحاً فلاحی منصوبہ تھا جس کا مقصد ناروال کے نوجوانوں کو کھیلوں کی اعلیٰ معیار کی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔
ہمارے ہاں بدقسمتی ہے حکومتیں ان قومی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں تاکہ مخالفین کو ڈرایاجاسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو مضبوط بنایاجائے تاکہ وہ اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرسکیں اور عوام کو ان پر اعتماد ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...