سیاست میں ایک نئے فیز کا آغاز ہو چکا عدلیہ کے تحریک انصاف کے استعفے منظور نہ کرنے اور پارلیمنٹ میں واپس جانے کے مشورہ کے بعد تحریک انصاف نے واپسی کے لیے پر تولنے شروع کر دیے ہیں واپسی کے لیے معقول راستوں کی تلاش جاری ہے ایک مناسب سا مطالبہ بھی سامنے آچکا کہ اگر امریکی سائفر کی انکوائری شروع کروا دی جائے تو تحریک انصاف پارلیمنٹ میں جانے کے لیے تیار ہے حالانکہ اس سے قبل تحریک انصاف فوری الیکشن کی تاریخ دینے سے کم پر کسی سے بھی بات کرنے پر تیار نہ تھی اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے معاملات کہیں نہ کہیں طے ہو چکے ہیں چونکہ پاکستان میں سیاسی انتشار کا پوری قوم اور ملک بہت بڑا خمیازہ بھگت چکے آخر کار مسائل کے حل کے لیے کوئی راستہ تو اختیار کرنا ہی تھا الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے بہت سارے معاملات اپوزیشن کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو نگران حکومتوں کے قیام سمیت بہت سارے معاملات پر حکومت اور اپوزیشن کا آن بورڈ ہونا بہت ضروری ہے یہ بھی ممکن ہے کہ نومبر کی تقرری یا توسیع والے معاملے پر بھی حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے سے کوئی راہ نکال لیں اس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کسی بھی گفت وشنید کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن ان کی سیکنڈ کمانڈ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھا سکتی ہے سیاست کے نئے مرحلہ میں محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہے ان کے خدشات ہیں کہ کہیں نیوٹرل نے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے اور موجودہ سیاسی بحران کے حل کا فیصلہ کر لیا ہے اسی لیے نون لیگ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے شدید قسم کی تنقید اور خدشات ظاہر کرنے شروع کر دیے ہیں ایوان صدر میں آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات کے بعد اب صدر مملکت کو پارلیمنٹ سے خطاب کے لیے بلوایا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر تحریک انصاف صدر کا خطاب سننے کے لیے موجود ہو کیونکہ جو شرط انھوں نے واپسی کے لیے رکھی ہے وہ بے ضرر ہے اس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں اور پھر اس انکوائری کا کوئی ٹائم فریم نہیں یہ بھی ممکن ہے کہ انکوائری کمیٹی بنا دی جائے لیکن اس کی تحقیقات اتنی سست ہو کہ یہ معاملہ بے نتیجہ رکھا جائے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کو خوف ہے کہ اگر نیوٹرل واقعی نیوٹرل ہو گئے تو ان کی حکومت کسی وقت بھی ڈانواں ڈول ہو سکتی ہے اس وقت ملک کی سب سے کمزور حکومت وفاق کی ہے جہاں تیرہ جماعتوں کے تعاون سے دو ووٹوں کی اکثریت سے کھڑی حکومت میں سے کسی ایک کو بھی اشارہ ہوا تو دھڑن تختہ ہو جائے گا سب کی کمزوریاں عیاں ہیں لہذا معاملات طے کروانا ناممکن نہیں البتہ تمام فریقین کی خواہشات کو پورا نہیں کیا جا سکتا کسی نہ کسی کو جھکنا پڑے گا یا سب کو ایک ایک دو دو قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا پی ڈی ایم کی جماعتوں اور ان کے پروردہ صحافیوں کی جانب سے جو واویلا کیا جا رہا ہے وہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاملات وائینڈ اپ کی طرف جا رہے ہیں عمران خان حکومت اور فیصلہ کن قوتوں پر مسلسل دباو بڑھا رہے ہیں اسلام آباد مارچ کی کال نے وفاقی حکومت کے پیروں تلے سے زمین کھسکا دی ہے انھیں علم ہے کہ اگر اس بار مارچ ہوا تو وہ مکمل تیاری کے ساتھ ہو گا اور اس میں کسی کی رضا بھی شامل ہو گی اب حالات بھی بہت سارے تبدیل ہو چکے 25 مئی کا مارچ قبل از وقت تھا نئی نئی رجیم چینج ہوئی تھی اس وقت نئی حکومت کو برقرار رکھنا ضروری تھا اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جس نے تحریک انصاف کے مارچ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا آج پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی سربراہی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی حکومت ہے چودھری پرویز الٰہی کو سیاسی معاملات کی کامیابی اور ناکامی پر دسترس حاصل ہے اوپر سے تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال سینئر وزیر بن چکے بہت سارے معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں وہ گراس روٹ کی سیاست کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں اب کی بار اگر لانگ مارچ ہوا تو اس کا بیس کیمپ پنجاب ہو گا جب اسلام آباد پر پنجاب، خیبر پختون خوا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے عوامی یلغار ہو گی تو اسے روکنا مرکز کے بس میں نہیں رہے گا پنجاب اور خیبر پختون خوا نے وفاق کو پولیس اور ایف سی کی نفری دینے سے انکار کر دیا ہے تحریک انصاف کے ورکرز مکمل طور پر چارج ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے اور اس سے پہلے ہی فریقین کو معاملات کے حل کی طرف لایا جائے کیونکہ 25 مئی اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اب بہت ساروں کے چاو بھی پورے ہو چکے ہیں اوپر سے پی ڈی ایم کی حکومت نے ہر معاملے میں کام خراب کیا کسی بھی معاملہ میں ریلیف نہ دے سکی اپنے لیے بھی مشکلات پیدا کیں اور اداروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا عوام میں بھی پذیرائی حاصل نہ کر سکی اس کے برعکس ہر آنے والے دن عمران خان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا جبکہ وفاقی حکومت کمزور سے کمزور تر آج صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں پی ڈی ایم کی حکومت ان کے کسی کام کی نہیں بین الاقوامی میڈیا بھی بھانپ چکا کہ پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے اس طرح پی ڈی ایم کی کہیں بھی دال نہیں گل رہی ابھی تو پی ڈی ایم کی حکومت کو سیلاب بچا گیا ہے لوگ مشکلات میں ہیں لوگوں کی سیاست پر جز وقتی توجہ ہے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ساتھ ہمدردیوں میں اضافہ ہوا ہے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے بین الاقوامی سطح پر امداد ملنا شروع ہو چکی ہے اب حکومت کی خواہش ہے کہ یہ امداد تقسیم کرنے اور بحالی تک انھیں وقت دے دیا جائے تاکہ وہ عوام میں اپنی ساکھ کو کچھ بہتر کر سکیں اور غیر ملکی امداد سے معاشی معاملات کو کچھ عرصہ تک چلایا جا سکے دوسری جانب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کی راہ ہموار ہو چکی انھیں واپس لا کر وزیر خزانہ بنایا جا رہا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ شاید وہ کوئی جگاڑ شگاڑ لگا کر وقتی طور پر بہتری کا سامان پیدا کر لیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف انھیں ہلہ شیری دے کر پاکستان لا رہے ہیں ورنہ اسحاق ڈار ان نامساعد حالات میں وطن واپس آنے پر راضی نہیں انھیں علم ہے کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو کسی مصیبت میں ڈالنے سے گریزاں ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لا کر ماحول چیک کیا جا رہا اصل معاملہ میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا ہے اگلے چند دنوں میں شاید مریم نواز کے پاسپورٹ کا معاملہ بھی حل ہو جائے پھر وہ والد کو لینے لندن چلی جائیں ایسے لگتا ہے سب کو سہولتیں دے کر نیا میدان سجانے کی کوشش کی جا رہی ہے آئندہ انتخابات کو یکطرفہ ہونے سے بچانے کیلئے دوسرے فریقین کو مرضی کے کاریگروں سے پچ بنانے کی سہولت بھی دی جا سکتی ہے لیکن عمران خان مقبولیت کے ہتھیار سے سب کو پچھاڑتا جا رہا ہے اکتوبر میں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔