وائینڈ اپ شروع 

Sep 26, 2022

سیاست میں ایک نئے فیز کا آغاز ہو چکا عدلیہ کے تحریک انصاف کے استعفے منظور نہ کرنے اور پارلیمنٹ میں واپس جانے کے مشورہ کے بعد تحریک انصاف نے واپسی کے لیے پر تولنے شروع کر دیے ہیں واپسی کے لیے معقول راستوں کی تلاش جاری ہے ایک مناسب سا مطالبہ بھی سامنے آچکا کہ اگر امریکی سائفر کی انکوائری شروع کروا دی جائے تو تحریک انصاف پارلیمنٹ میں جانے کے لیے تیار ہے حالانکہ اس سے قبل تحریک انصاف فوری الیکشن کی تاریخ دینے سے کم پر کسی سے بھی بات کرنے پر تیار نہ تھی اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے معاملات کہیں نہ کہیں طے ہو چکے ہیں چونکہ پاکستان میں سیاسی انتشار کا پوری قوم اور ملک بہت بڑا خمیازہ بھگت چکے آخر کار مسائل کے حل کے لیے کوئی راستہ تو اختیار کرنا ہی تھا الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے بہت سارے معاملات اپوزیشن کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو نگران حکومتوں کے قیام سمیت بہت سارے معاملات پر حکومت اور اپوزیشن کا آن بورڈ ہونا بہت ضروری ہے یہ بھی ممکن ہے کہ نومبر کی تقرری یا توسیع والے معاملے پر بھی حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے سے کوئی راہ نکال لیں اس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کسی بھی گفت وشنید کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن ان کی سیکنڈ کمانڈ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھا سکتی ہے سیاست کے نئے مرحلہ میں محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہے ان کے خدشات ہیں کہ کہیں نیوٹرل نے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے اور موجودہ سیاسی بحران کے حل کا فیصلہ کر لیا ہے اسی لیے نون لیگ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے شدید قسم کی تنقید اور خدشات ظاہر کرنے شروع کر دیے ہیں ایوان صدر میں آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات کے بعد اب صدر مملکت کو پارلیمنٹ سے خطاب کے لیے بلوایا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر تحریک انصاف صدر کا خطاب سننے کے لیے موجود ہو کیونکہ جو شرط انھوں نے واپسی کے لیے رکھی ہے وہ بے ضرر ہے اس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں اور پھر اس انکوائری کا کوئی ٹائم فریم نہیں یہ بھی ممکن ہے کہ انکوائری کمیٹی بنا دی جائے لیکن اس کی تحقیقات اتنی سست ہو کہ یہ معاملہ بے نتیجہ رکھا جائے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کو خوف ہے کہ اگر نیوٹرل واقعی نیوٹرل ہو گئے تو ان کی حکومت کسی وقت بھی ڈانواں ڈول ہو سکتی ہے اس وقت ملک کی سب سے کمزور حکومت وفاق کی ہے جہاں تیرہ جماعتوں کے تعاون سے دو ووٹوں کی اکثریت سے کھڑی حکومت میں سے کسی ایک کو بھی اشارہ ہوا تو دھڑن تختہ ہو جائے گا سب کی کمزوریاں عیاں ہیں لہذا معاملات طے کروانا ناممکن نہیں البتہ تمام فریقین کی خواہشات کو پورا نہیں کیا جا سکتا کسی نہ کسی کو جھکنا پڑے گا یا سب کو ایک ایک دو دو قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا پی ڈی ایم کی جماعتوں اور ان کے پروردہ صحافیوں کی جانب سے جو واویلا کیا جا رہا ہے وہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاملات وائینڈ اپ کی طرف جا رہے ہیں عمران خان حکومت اور فیصلہ کن قوتوں پر مسلسل دباو بڑھا رہے ہیں اسلام آباد مارچ کی کال نے وفاقی حکومت کے پیروں تلے سے زمین کھسکا دی ہے انھیں علم ہے کہ اگر اس بار مارچ ہوا تو وہ مکمل تیاری کے ساتھ ہو گا اور اس میں کسی کی رضا بھی شامل ہو گی اب حالات بھی بہت سارے تبدیل ہو چکے 25 مئی کا مارچ قبل از وقت تھا نئی نئی رجیم چینج ہوئی تھی اس وقت نئی حکومت کو برقرار رکھنا ضروری تھا  اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جس نے تحریک انصاف کے مارچ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا آج پنجاب میں چودھری  پرویز الٰہی کی سربراہی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی حکومت ہے چودھری  پرویز الٰہی کو سیاسی معاملات کی کامیابی اور ناکامی پر دسترس حاصل ہے اوپر سے تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال سینئر وزیر بن چکے بہت سارے معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں وہ گراس روٹ کی سیاست کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں اب کی بار اگر لانگ مارچ ہوا تو اس کا بیس کیمپ پنجاب ہو گا جب اسلام آباد پر پنجاب، خیبر پختون خوا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے عوامی یلغار ہو گی تو اسے روکنا مرکز کے بس میں نہیں رہے گا پنجاب اور خیبر پختون خوا نے وفاق کو پولیس اور ایف سی کی نفری دینے سے انکار کر دیا ہے تحریک انصاف کے ورکرز مکمل طور پر چارج ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے اور اس سے پہلے ہی فریقین کو معاملات کے حل کی طرف لایا جائے کیونکہ 25 مئی اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اب بہت ساروں کے چاو بھی پورے ہو چکے ہیں اوپر سے پی ڈی ایم کی حکومت نے ہر معاملے میں کام خراب کیا کسی بھی معاملہ میں ریلیف نہ دے سکی اپنے لیے بھی مشکلات پیدا کیں اور اداروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا عوام میں بھی پذیرائی حاصل نہ کر سکی اس کے برعکس ہر آنے والے دن عمران خان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا جبکہ وفاقی حکومت کمزور سے کمزور تر آج صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں پی ڈی ایم کی حکومت ان کے کسی کام کی نہیں بین الاقوامی میڈیا بھی بھانپ چکا کہ پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے اس طرح پی ڈی ایم کی کہیں بھی دال نہیں گل رہی ابھی تو پی ڈی ایم کی حکومت کو سیلاب بچا گیا ہے لوگ مشکلات میں ہیں لوگوں کی سیاست پر جز وقتی توجہ ہے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ساتھ ہمدردیوں میں اضافہ ہوا ہے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے بین الاقوامی سطح پر امداد ملنا شروع ہو چکی ہے اب حکومت کی خواہش ہے کہ یہ امداد تقسیم کرنے اور بحالی تک انھیں وقت دے دیا جائے تاکہ وہ عوام میں اپنی ساکھ کو کچھ بہتر کر سکیں اور غیر ملکی امداد سے معاشی معاملات کو کچھ عرصہ تک چلایا جا سکے دوسری جانب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کی راہ ہموار ہو چکی انھیں واپس لا کر وزیر خزانہ بنایا جا رہا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ شاید وہ کوئی جگاڑ شگاڑ لگا کر وقتی طور پر بہتری کا سامان پیدا کر لیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف انھیں ہلہ شیری دے کر پاکستان لا رہے ہیں ورنہ اسحاق ڈار ان نامساعد حالات میں وطن واپس آنے پر راضی نہیں انھیں علم ہے کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو کسی مصیبت میں ڈالنے سے گریزاں ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لا کر ماحول چیک کیا جا رہا اصل معاملہ میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا ہے اگلے چند دنوں میں شاید مریم نواز کے پاسپورٹ کا معاملہ بھی حل ہو جائے پھر وہ والد کو لینے لندن چلی جائیں ایسے لگتا ہے سب کو سہولتیں دے کر نیا میدان سجانے کی کوشش کی جا رہی ہے آئندہ انتخابات کو یکطرفہ ہونے سے بچانے کیلئے دوسرے فریقین کو مرضی کے کاریگروں سے پچ بنانے کی سہولت بھی دی جا سکتی ہے لیکن عمران خان مقبولیت کے ہتھیار سے سب کو پچھاڑتا جا رہا ہے اکتوبر میں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔

مزیدخبریں