ہم بدقسمت ہیں یا بے بس ہیں کچھ بھی کہیں یہ بات طے ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے وطن کو چند لوگوں نے برباد ضرور کیا ہے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے معمولی فوائد یا پھر کاروبار کے لیے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے۔ اس میں بہت سے شرفاءکا نام آتا ہے۔ میں کہتا ہوں تو لوگوں کو برا لگتا ہے، مجھے کہا جاتا ہے کہ تم لحاظ نہیں کرتے، خیال نہیں رکھتے، طریقہ اور انداز درست نہیں ہے۔ مجھے بتائیں جب میرے سامنے پاکستان کو برباد کرنے والے ہوں اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے ہوں تو کیا میں ان سے پھولوں کے ہار لے کر بات کروں۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے بارے بات کرتے ہوئے نہایت گول مول بات یا گھما پھرا کر بات کروں۔ کیا اس ملک میں وسائل سے محروم افراد کا یہ حق نہیں کہ ان کی زندگی بہتر ہو، انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں، ان کے بچوں کی تعلیم اچھی ہو، والدین کو علاج کی ضرورت ہو تو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ یہ ہر پاکستانی کا حق ہے اور اگر کوئی طبقہ اس حق کے راستے میں رکاوٹ ہے تو پھر اس کے بارے میں سیدھی بات ہی ہونی چاہیے۔ کیونکہ بہت وقت گذر چکا ہے۔ پاکستان میں امیر طبقہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غربت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی خبر بلکہ ایک سے زیادہ خبریں ایسی ضرور نظر سے گذرتی ہیں جنہیں دیکھ اور پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایسی ہی ایک خبر راولپنڈی کی ہے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ راولپنڈی شہر کی تین سو چھتیس ہاو¿سنگ سوسائٹیز کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی سیف انور جپہ کے مطابق راولپنڈی میں چار سو چوراسی ہاو¿سنگ سوسائٹیز میں سے تین سو چھتیس غیر قانونی ہیں جبکہ 79 ہاو¿سنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن کا معاملہ زیر غور ہے۔ راولپنڈی میں صرف 69 ہاو¿سنگ سوسائٹیز قانونی ہیں۔ اب یہ اعدادوشمار دل جلانے اور دماغ کو گھمانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ غیر قانونی سوسائٹیاں کیسے بن گئیں، ہو سکتا ہے تعمیرات بھی ہوں کیونکہ پاکستان میں یہ بہت عام سی بات ہے۔ لاہور میں بھی ایسا ضرور ہو گا۔ اس بد انتظامی کا ذمہ دار کوئی تو ہے۔ ہمارے شہروں کا بہت برا حال ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے شہروں کے پھیلاو¿ کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، کوئی ٹاو¿ن پلاننگ نہیں ہے، کوئی ترتیب نہیں، کوئی منصوبہ بندی نہیں، کوئی حکمت عملی نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں بس بے ہنگم تعمیرات ہو رہی ہیں۔ کراچی جو کہ ملک کا معاشی مرکز ہے اس کی تباہی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر ہم نے کوئی سبق سیکھا ہوتا یا ہم ملک کی تعمیر کا جذبہ رکھتے تو کراچی کی تباہی کے بعد لاہور، راولپنڈی سمیت دیگر شہروں کو بچانے کے لیے اقدامات کرتے لیکن فیصلہ سازوں نے کوئی بھی بہتر حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے آنکھیں بند رکھیں اور آج حالات بے قابو ہو چکے ہیں۔ شہر اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ایک ہی شہر میں سفر کرنا دشوار ہو چکا ہے۔ ہر جگہ انڈر پاس اور فلائی اوورز ہیں۔ گاڑیوں کا سمندر شہر کی طرف ہوتا ہے۔ یہ کام کس کے کرنے کا تھا کہ موٹر وے پر جب زندگی آ چکی ہے۔ وہاں نئے شہر آباد کیے جاتے، صنعتی زون بنائے جاتے، کاروباری سرگرمیاں شروع ہوتی، فیکٹریاں لگتیں، زرعی ترقی کے لیے جدید طریقوں پر کام ہوتا، نئے شہر بسانے سے بڑے شہروں پر بوجھ نہ آتا، انفراسٹرکچر کو خطرات لاحق نہ ہوتے، انتظامی خرابیوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا، ہم نے اپنے شہروں کو کنکریٹ کے شہروں میں بدل دیا ہے، ماحولیاتی آلودگی نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔ اس سے بھی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ صورت حال میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ نہ نئے شہر بنائے جا رہے ہیں نہ پرانے شہروں کو سنبھالا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں پرانے شہروں کے مخصوص علاقوں کو سیاحت کے لیے مخصوص تکھا جاتا ہے۔ ایسے علاقوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ ایسے علاقوں کو سنوارا جاتا ہے تاکہ سیاحوں کی تعداد کو بڑھایا جا سکے۔ ہمارے بڑے شہروں میں ایسے علاقوں کی بہت شاندار تاریخ ہے لیکن ہم اس اثاثے کو سنھبالنے کے بجائے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پرانھ لاہور کی حالت دیکھیں کیا وہاں کوئی جانا چاہے گا۔ اس تاریخی ورثے کے ساتھ جو سلوک آج تک ہم کر چکے ہیں وہ ہماری ملک دشمنی سے کسی بھی طور کم نہیں ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ ظلم کرنےوالے کیا کسی رعایت کے مستحق ہیں۔
راولپنڈی میں غیر قانونی ہاو¿سنگ سوسائٹیز کےخلاف خصوصی ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے اور لگ بھگ تین درجن کے قریب غیرقانونی ہاو¿سنگ سکیموں کی تعمیرات گرا دی گئی ہیں۔ غیر قانونی ہاو¿سنگ سکیموں کے مالکان کےخلاف قانونی کارروائی کی گئی اور آٹھ مالکان کو گرفتار کیا گیا، غیرقانونی ہاو¿سنگ سوسائٹیز کی سوشل میڈیا پر تشہیر روکنے کے لیے بھی ایف آئی اے کو خط لکھنے کے ساتھ ساتھ ان سوسائٹیز کےخلاف آپریشن کے دوران 80 مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ جب غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہوتی ہیں تو متعلقہ محکمہ سویا رہتا ہے بعد میں لوگوں کے بنے ہوئے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔ اس نااہلی پر متعلقہ محکموں کے اعلی افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی کیا سوسائٹیز کے مالکان کے خلاف مقدمات کا اندراج یا کارروائی کافی ہے۔ کیا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس عمل میں شامل تمام افراد کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔ ٹاو¿ن پلاننگ کو اہمیت دینے اور نئے شہروں کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسلام نے زندگی کو بہتر بنانے کا ہر طریقہ سکھایا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ نہ تو ہم قرآن پاک کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک زندگی اور سنتوں پر عمل کرتے ہیں اگر ہم قرآن و سنت کی طرف جائیں، قرآن و سنت پر عمل کریں تو ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ کامیابی اور ترقی کا نسخہ الماریوں میں سجا رکھا ہے اور سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔
آخر میں آفتاب حسین کا کلام
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستان گلاب لکھنا
میں جب چلوں گا تو ریگزاروں میں الفتوں کے کنول کھلیں گے
ہزار تم میرے راستوں میں محبتوں کے سراب لکھنا
فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا
وہ میری خواہش کی لوح تشنہ پہ زندگی کے سوال ابھرنا
وہ اس کا حرف کرم سے اپنے قبولیت کے جواب لکھنا
گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنےوالے دنوں کے رنگین خواب لکھنا
ہم بدقسمت ہیں یا بے بس ہیں؟؟؟؟؟
Sep 26, 2023