مومنہ چیمہ فاﺅنڈیشن کا خدمت خلق کے سلسلے میں پاکستان کا سفر اور پھر وطن عزیز کے اندر مسلسل سفر گو کہ دشوار اور تھکا دینے والا ہوتا ہے لیکن غریب عوام کے حالات دیکھ کر کوئی مشکل مشکل نہیں لگتی۔ تعلیم سے کوئی بچہ صرف اس لئے محروم رہے کہ سرکاری درسگاہ کی فیس بھی ادا کرنے کی حیثیت نہ ہو تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ صاف پانی راشن کپڑا جوتا جیسی بنیادی ضروریات سے محرم عوام اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلانے کا کیوں کر سوچ سکتے ہیں۔ مومنہ چیمہ سکالر شپ پروگرام کے تحت طالبات کو پروفیشنل ڈگریاں دلانے کے لئے مختلف سرکاری یونیورسٹیوں میں وزٹ کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ملک بھر میں حسب توفیق سکالر شپ تقسیم کئے جاتے ہیں ،پاکستان کے حالیہ وزٹ میں مری اور مردان کی یونیورسٹیوں میں مستحق طالبات کو وظائف لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ مزید جاری ہے الحمد للّٰہ۔ کوہسار یونیورسٹی مری چار حصوں پر مشتمل ہے۔یونیورسٹی اس وقت گورنمنٹ ڈگری کالج مری (بوائز)، گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین مری، پنجاب ہاو¿س مری، ریسورس سینٹر مری اور مری بریوری میں کام کررہی ہے۔مومنہ چیمہ فاﺅنڈیشن ویمن امپاورمنٹ میں تعلیم کے ذریعہ کوفروغ دے رہی ہے۔ ویمن یونیورسٹی مردان کے پی کے کا بھی وزٹ کیا۔ مومنہ چیمہ فاﺅنڈیشن کے سکالر شپ پروگرام کے تحت ڈونر حضرات اپنے مرحوم رشتے داروں کی جانب سے بھی ایصال ثواب کا سلسلہ جاری کرسکتے ہیں۔ اسے میموریل سکالر شپ کہتے ہیں اور زندہ کے نام پر بھی صدقہ جاریہ کرسکتے ہیں۔ اسے Scholarship Legacy کہاجاتا ہے یعنی نیویارک سے ہمارے ایک ڈونر ریٹائرڈ کرنل سردار افتخار صاحب اپنے نام سے وظائف کا صدقہ جاریہ کرتے ہیں۔اسی طرح جہلم پنجاب یونیورسٹی میں نواز ملک صاحب کی جانب سے ان کے نام پر لیگیسی سکالر شپ لگایا گیا۔ڈاکٹر کنیز فاطمہ اپنی دادی مرحومہ کے ایصال ثواب کے لئے عذرا بیگم سکالر شپ کے نام پر میڈیکل کالج میں سکالر شپ دیتی ہیں۔بندہ اپنی زندگی میں اپنے نام پر خواہ کسی صورت میں ہو صدقہ جاریہ لگا دے تو اس سے بڑی دانشمندی کیا ہو گی۔ اور مرحوم والدین یا عزیز کی جانب سے بھی تعلیم کا صدقہ جاریہ کرنا بہترین ایصال ثواب ہے۔ کچھ احباب صاف پانی کا کنواں لگوانے کی خواہش کرتے ہیں تو کنویں پر ان کے نام کی تختی لگائی جاتی ہے۔ اسی طرح کوئی صحت اور تعلیم کے لئے صدقہ کرتے ہیں اور ایسے بھی مخیر حضرات ہیں جو بھوکے کو کھانا کھلانے یا بیروزگا کے مستقل روزگار کے لئے راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں غربت اور کمر توڑ مہنگائی کے سبب عام شہری کے لئےایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے وہاں دیگر ضروریات زندگی اور تعلیمی اخراجات کا پورا کرنا آزمائش بنتا جا رہا ہے۔ حکومتوں کے کرنے کے کام عوام کر رہے ہیں اور وہ بھی بہت کم تعداد میں۔امرا کے پاس بے تحاشہ دولت ہے مگر راہ خدا میں دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہے۔مومنہ چیمہ سکالرز کا کہنا ہے کہ اگر ان کی بروقت مدد نہ کی جاتی تو وہ تعلیم مکمل نہیں کر سکتی تھیں ، ایسی بے شمار طالبات ہیں جو مالی معاونت نہ ہونے کے سبب تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ سرکار کے پاس بجٹ کی تنگی نیا جواز نہیں ، خزانہ ہمیشہ سے خالی ہی سنا ہے۔ شعبہ تعلیم ہمیشہ سے سرکار کی عدم دلچسپی اور محدود بجٹ کے سبب مشکلات سے دوچار ہے۔ غریب کے بچے حصول تعلیم کے لئے ترستے ہیں اور ڈونر ز بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لئے صدقہ جاریہ کرنے کی بجائے مساجد میں پنکھے لگوانے جیسے کاموں کو بڑی نیکی سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر طالبات کو ہائر ایجوکیشن دلانے میں کم ہی باشعور افراد حصہ ڈالتے ہیں۔
مومنہ چیمہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام امت مسلمہ کے لئے ایک رول ماڈل ہے جس نے کم عمری میں امریکہ میں اسلامی فلاسفی کو اپنے علم اور عمل سے اس طور متعارف کرایا کہ امریکی پروفیسر اور نوجوان نسل مومنہ کو مسلم رول ماڈل کہنے پر مجبور ہو گئے۔اور 2011ءمومنہ کے اس دنیا سے جانے کے سانحہ پرامریکہ کی ٹاپ یونیورسٹی ورجینیا کے لا کالج نے اسلامی قانون کی ڈگری کےقابل سٹوڈنٹس کے لئے”مومنہ چیمہ سکالر شپ “ دینے کا فیصلہ کیا۔ مومنہ کے نام پر اس صدقہ جاریہ کے تحت امریکہ بھر سےاب تک متعدد سٹوڈنٹس اسلامی قانون کی ڈگریاں لے چکے ہیں۔پاکستان کے بھی پانچوں صوبوں میں مومنہ چیمہ سکالر شپ کا سلسلہ جاری ہے۔ تعلیم سب سے اہم صدقہ جاریہ ہے۔ ہم نے اس مشن کا آغاز 2012 میں پنجاب یونیورسٹی لائ سکول سے کیا اور سینکڑوں طالبات آج وکیل اور جج بن کر اپنے پاﺅں مضبوط کر چکی ہیں۔ قانون کی ڈگری کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی وظائف دئیے جاتے ہیں۔ہائر ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ بلتستان سکردو کے قریب ضلع شگر کے ایک دو افتادہ گاﺅں چھورکا میں مومنہ چیمہ سکول چلا رہے ہیں۔شگر کے دیہات کی طالبات کو کمپیوٹر سائنس کے کورس بھی کرائے جاتے ہیں اس کے علاوہ اطراف کے مختلف دیہاتوں کی مستحق طالبات کو سکردو میں “ مومنہ چیمہ ہاسٹل “ مہیا کر رکھا ہے جہاں مستحق لڑکیاں کالج کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ہائرایجوکیشن کے سلسلے میں بلوچستان بھی پہنچے اورکوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج سے ایک ذہین طالبہ کو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں میڈیکل ریسرچ پروگرام کے لئے سکالر شپ مہیا کیا جس کی مدد سے امریکہ میں ڈاکٹر بنے گی۔