میاں نواز شریف کی لندن بڑھک اور میاں شہباز شریف کے مختصر دورہ پاکستان نے سیاسی حلقوں میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔ تمام تر کھوجی بال کی کھال اتار رہے ہیں لیکن کنفرم خبر کسی کے پاس نہیں کہ ہوا کیا ہے اور ہونے کیا جا رہا ہے۔
میاں نواز شریف کا جنرل قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید بارے بیان اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کو چیک کرنے کا پیمانہ بھی ہو سکتا ہے اور مخصوص قسم کے حالات پیدا کرنے کا پیش خیمہ بھی۔ لیکن میاں شہباز شریف کو کیوں الٹے پاوں واپس جانا پڑا اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی یہ بات کہ انتخابات عمران خان کے بغیر بھی ممکن ہیں کچھ اور ہی معاملات کی نشاندہی کر رہی ہے جس نے تحریک انصاف کے حلقوں میں شدید قسم کی تشویش پیدا کر دی ہے۔ وہ اس بات کو ایسے بھی کہہ سکتے تھے کہ سزا یافتہ اور مقدمات میں ملوث افراد کے الیکشن لڑنے کا فیصلہ الیکشن کمیشن یا عدالتیں کریں گی۔ اس سے ان پر براہ راست تنقید کم ہونا تھی اور جو وہ کہنا چاہتے تھے وہ بات احسن طریقے سے واضح بھی ہو جانی تھی لیکن ان کی جانب سے براہ راست ڈانگ مارنے سے انتخابات کی صحت پر ابھی سے چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور تنقیدی توپوں کا رخ بھی ان کی جانب ہو گیا ہے۔
یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ چیرمین پی ٹی آئی اور گرفتار افراد کو الیکشن نہیں لڑنے دیا جائے گا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور عوام ایسے انتخابات کو قبول کر لیں گے اور دوسرا یہ سارا کچھ کیوں کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی جماعت پر قدغن لگا کر اور کسی جماعت کو فری ہینڈ دے کر الیکشن کروائے گئے تو اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔
انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں اٹھیں گی اور عین ممکن ہے کہ انتخابات امن و امان کا مسلہ بن جائیں۔ انتخابات کا میدان جنگ ہمیشہ سے پنجاب رہا ہے۔ کیا یہ سارا کچھ پنجاب میں اس ن لیگ کے لیے کیا جا رہا ہے جس کے کرتا دھرتا میاں نواز شریف ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کر رہے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے بعد مسلم لیگ ن سے ازسرنو لڑائی لڑے گی۔
پیپلزپارٹی پہلے ہی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لیول پلینگ فیلڈ مانگ رہی ہے سیاسی جماعتوں کی اکثریت اپنے عزائم سے ایسے حالات پیدا کر رہی ہیں جس سے مارشل لاءکے اسباب پیدا ہو جائیں۔ ویسے کہتے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی تو ہو ہی چکی ہے۔ قانون کی روسے اگر کوئی ایک روپے کی چوری کرے تو بھی ان ہی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو گا جو ایک کروڑ روپے کی چوری پر ہو گا۔ اسی طرح ایک قتل پر بھی 302 کا مقدمہ درج ہونا ہے اور 10 افراد کے قتل پر بھی وہی مقدمہ درج ہونا ہے۔
پنجاب میں سپریم کورٹ کے حکم پر 14 مئی کو انتخابات نہ کروا کر آئین سے روگردانی ہو چکی۔ اسی طرح حکومتوں کی آئینی مدت ختم ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات نہ ہونے سے آئینی تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔ 90 روز سے ایک دن اوپر ہونے سے بھی وہی معاملات فیس کرنے پڑیں گے جو چھ ماہ بعد الیکشن کروانے یا دو سال بعد الیکشن کروانے سے فیس کرنا ہوں گے۔
الیکشن کمشن نے جنوری کے آخر میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے لیکن تاحال کوئی بھی سیاسی جماعت ابھی تک انتخابی میدان میں نہیں اتر پا رہی۔ نہ جانے کس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے یا سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کو تاحال یقین نہیں آ رہا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں۔
خبر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کی نگران حکومت پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباو آ سکتا ہے۔ بعض لوگ تو یہ افواہیں بھی پھیلا رہے ہیں کہ صوبوں میں ریٹائرڈ افراد کو گورنر لگا کر انھیں با اختیار بنایا جا سکتا ہے۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے دل میں کیا ہے لیکن سیاست ڈیڈ لاک پیدا کرنے کا نام نہیں بلکہ ہرقسم کے حالات میں راہ نکالنے کا نام سیاست ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدان ڈیڈ لاک پیدا کرکے حالات کو مزید خراب کرتے جا رہے ہیں۔
حالات کی نزاکت کا تقاضہ ہے کہ جیسے تیسے الیکشن ملتے ہیں انھیں قبول کر کے جمہوریت کو برقرار رکھنے کا راستہ اپنائیں۔ من مانیاں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ایک دوسرے کو راستے سے ہٹانے کی سوچ سب کو راستے سے ہٹا دے گی۔ سب کو اپنے ظرف سے زیادہ برداشت کرنے اور حکمت سے آگے بڑھنے کا وقت ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی لچک دکھانے کی طرف نہیں آ رہا۔ سب مارشلائی باتیں کر کے ٹھوس جواز فراہم کر رہے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ انتخابات آئینی مدت کی حد تو عبور کر چکے ہیں، کیوں نہ سب کو سیدھا کر لیا جائے۔ انتخابات کاغذ کی کشتی کی مانند ہیں جو ہلکی سی بوندا باندی سے ڈوب سکتی ہے۔ آگے سیاستدانوں کی مرضی۔
٭....٭....٭
ماورائے آئین باتیں
Sep 26, 2023