چناﺅ آئیگا تو پلاﺅ آئیگا

غریب کی تھالی میں پلاو¿ آگیا ہے 
لگتا ہے شہر میں چناو¿ آگیا ہے۔ 
 یہاں شاعر نے پلاو کو چناو سے جسطرح جوڑا وہ کمال ہے ،شعر تو انتخابی قسم کا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا استعمال چناو¿ سے زیادہ پلاو¿ کیلئے کیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ شعر ہمارے انتخابی ماحول کی بالکل ٹھیک عکاسی کرتا ہے ہاں شاید پلاو کی جگہ بریانی یا قیمے والے نان کہا جائے تو یہ عکاسی مزید بھرپور اور مکمل دکھائی دینے لگے۔ لیکن ظاہر ہے شعر کا وزن بھی تو قائم کرنا ہوتا ہے ، اسلئے یہاں پلاو کو ہی بریانی یا قیمے والے نان سمجھ لیا جائے۔
 ویسے تو مہمان نوازی ہمارے یہاں بالخصوص دیہاتی کلچر کا لازم جزو ہے۔ گھر آئے مہمان کو کھانا کھلائے بغیر رخصت کردینا ہمارے گاوں دیہات میں کسی طور مناسب نہیں سمجھا جاتا،اب کسی کو جلسے میں بلایا جائے اور تواضع کے بغیر بھیج دیا جائے تو یہ بھی آداب مہمان نوازی کے خلاف ہوگا۔ لیکن گزشتہ سالوں کے دوران جو نفرت اور مخالفت کی سیاست اس ملک میں پروان چڑھی اس نے مہمان نوازی کی اس روایت کو بھی متنازعہ اور مذاق بنادیا اور جلسوں میں آنیوالوں کو دی جانے والی بریانی اور قیمے والے نان وغیرہ کو طنز اور تنقید کا نشان بنادیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا ٹرولز کے ذریعے سیاسی جلسوں میں لوگوں کے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کی ویڈیوز کو مخالف سیاسی جماعت سے جوڑ کر وائرل کرکے بھی غریب کی خوب مٹی پلید کی گئی۔ لیکن شاید ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جنہیں واقعی پلاو کیلئے چناو¿ جیسے مواقع کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔پانچ دن پلاو کا انتظار نہ کرسکنے والوں کو پانچ سال اس انتظار میں بیٹھے رہنے والوں کی شدت طلب کا کیا احساس۔ اس لئے کھانا حاصل کرنے کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن کسی کی بھوک اور کھانے کی طلب کا مذاق اڑانا ان کی تضحیک ہے ، یہ بات یہاں کرنا اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی جلسوں کا ماحول گرم ہوگا تو پھر ایسی بہت سی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں گی۔ رہی بات چناو کی تو ابھی تک غریب کی تھالی میں پلاو دکھائی نہیں دے رہا اسی لئے بہت سے لوگوں کو چناو بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ پہلے تو صدر اور الیکشن کمشن میں سینگ پھنسے رہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔ صدر صاحب اپنا حق سمجھ بیٹھے الیکشن کمشن والوں کو بلایا بھی لیکن انہوں نے صاف کہہ دیا کہ یہ ہمارا دائرہ کار ہے ہم جانیں اور ہمارا کام۔ صدر نے وزارت قانون والوں کو بلا کر پوچھا تو انہوں نے بھی بتایا کہ الیکشن کمشن والے ٹھیک کہہ رہے ہیں قانون بدل گیا۔ اب یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ صدر صاحب پر انکی پارٹی والوں نے دباو ڈالا کہ آپ تاریخ دیں انہوں نے مجبوری میں یہ شرط پوری کردی ،خط لکھ دیا تاریخ بھی تجویز کی لیکن صرف تجویز کی حد تک ،اس پر زور نہ دیا۔پھر الیکشن کمشن نے ایک چھوٹے سے چار سطری بیان میں جنوری کے آخر میں الیکشن کرانے کا کہہ کر اپنی جانب سے توپوں کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ الیکشن کمشن کے زرائع بتاتے ہیں کہ تیس نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل ہونی ہیں۔ اس کی بعد چوون دن کا وقت ہوگا جو شیڈول کے اجرا کے بعد کاغذات کی وصولی ،جانچ پڑتال اور انتخابی مہم کیلئے قانونی طور پر مختص ہوتا ہے۔ اور اس بیان کا مقصد یہی تھا کہ انتخابات کے حوالے سے جو غیر یقینی ہے وہ ختم ہو۔ لیکن اس اعلان نے غیر یقینی ختم نہیں کی سوالات اب بھی موجود ہیں اور اس بار تو جتنی غیر یقینی پیدا ہو چکی ہے یا پھر یوں کہیں کہ کی جاچکی ہے تو لگتا ایسا ہی ہے کہ الیکشن ہونے نہ ہونے کے سوالات تو انتخابات کے دن تک اٹھائے جاتے رہیں گے۔ اس وقت تو انہیں بھی یقین نہیں جنہوں نے الیکشن لڑنا ہے ورنہ الیکشن میں چند مہینے کا وقت ہو اور ایسی خاموشی، ایسا کبھی ہوتا نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما کہتے ہیں کہ اپنا ہوم ورک تو سیاسی جماعتیں کررہی ہیں لیکن جب تک شیڈول نہیں آتا تب تک کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اور جب تک سیاسی جماعتوں کی غیر یقینی ختم نہیں ہوگی الیکشن کا ماحول نہیں بنے گا۔ یا پھر یوں بھی کہہ لیں کہ جب تک غریب کی تھالی میں پلاو نہیں آئے گا کوئی نہیں مانے گا کہ چناو آئے گا۔ اور پھر عوام کو بھی چاہئے کہ جب بھی چناو آئے وہ جس کا چناو کریں وہ ایسا ہو جو ان کی خالی تھالی کا احساس کرے۔ چناو کے بعد بھی کرتا رہے تا کہ اس ملک کے غریب کو پلاو کیلئے چناو کا انتظار نہ کرنا پڑے۔

ای پیپر دی نیشن