قلعہ ستار شاہ کے قریب میانوالی سے لاہور آنےوالی ٹرین پٹری پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی جس کے نتیجہ میں خوفناک دھماکہ ہوا ،حادثے میں ٹرین ڈرائیور ‘ اسسٹنٹ ڈرائیور اور چار عورتوں سمیت 29مسافر زخمی ہو گئے ،حادثہ کانٹانہ بدلنے کے باعث پیش آیا۔ چیف ایگزیکٹو افسر پاکستان ریلوے شاہد عزیز نے ریلوے ہیڈکوارٹرز میں ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین آپریشن محفوظ بنانا پہلی ترجیح ہے، مسافروں کی سیفٹی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا، میانوالی ایکسپریس حادثہ پر چار اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے، غفلت ثابت ہونے پر قانون کے مطابق سخت کارروائی کریں گے۔ ڈپٹی پرنسپل افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اگلے چوبیس گھنٹے میں ابتدائی رپورٹ جمع کروائے گی۔
ٹرین ایک محفوظ ذریعہ¿ سفر سمجھا جاتا ہے مگر جس تواتر سے ٹرین حادثات رونما ہو رہے ہیں‘ اب یہ سفر بھی غیرمحفوظ تصور کیا جانے لگا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ انگریز کے دور کا بچھایا ہوا ٹریک اب بوسیدہ ہو چکا ہے‘ مگر ریلوے انتظامیہ مرمت کرکے اسی سے کام چلا رہی ہے۔ کراچی سے پشاور تک کئی مقامات پر آج بھی سنگل ٹریک چل رہا ہے‘ 75 سال گزرنے کے باوجود اسے ڈبل نہیں کیا جا سکا۔ آئے روز ٹریک ٹوٹنے‘ ٹرین پٹڑی سے اترنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ٹرینوں کا کئی کئی گھنٹے لیٹ ہونا معمول ہے۔ ریلوے کے اتفاقاً حادثات اپنی جگہ‘ عملے کی غفلت بھی کئی حادثات کا باعث بن رہی ہے۔ گزشتہ روز ہونیوالا حادثہ سراسر عملے کی غفلت کے باعث ہی پیش آیا جس میں 29 افراد زخمی ہوگئے۔ یہ حادثہ سنگین نوعیت کا بھی ہو سکتا تھا۔ گوکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان ریلوے شاہد عزیز نے ہنگامی اجلاس میں ٹرین اپریشن کو ترجیحی بنیادوں پر محفوظ بنانے اور مسافروں کی سیفٹی پر کوئی کمپرومائز نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے‘ وزیر ریلوے اور انتظامیہ کی طرف سے ایسے ہی دل خوش کن بیانات سامنے آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج تک ریلوے کے بوسیدہ نظام کو درست نہیں کیا جا سکا۔ روزانہ لاکھوں مسافر سفر کرتے ہیں جو آئے روز کے حادثات کے باعث خود کو غیرمحفوظ تصور کرتے ہیں۔ عوام کے سفر کا زیادہ تر انحصار ریلوے پر ہے‘ بہتر ہے ریلوے سسٹم میں بہتری لا کر اسے دور جدید کے تقاضوں کے ہم آہنگ کیا جائے اور غفلت برتنے والے عملے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔