پیدائش کے بعد آپ اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے رہے اور پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کو دودھ پلاتی رہیں۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ شرفاءاپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے گرد نواح کے دیہات میں بھیج دیتے تھے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ میں بنی سعد کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ مکرمہ چلی گئی۔ اس سا ل عرب میں بہت سخت قحط پڑ ا تھا۔ میری گود میں ایک بچہ تھا مگر میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کے لیے کافی ہوتا اور ہمارے پاس ایک اونٹنی تھی وہ بھی دودھ نہیں دیتی تھی۔ جس خچر پر میں سوا رتھی وہ بھی اتنا کمزور تھا کہ قافلے والوں کے ساتھ نہ چل سکا اور میرے ساتھ چلنے والے بھی مجھ سے تنگ تھے۔
جب ہم مکہ مکرمہ پہنچیں تو جو بھی عورت آپ ﷺ کو دیکھتی اور جب ان کو پتہ چلتا کہ آپ یتیم ہیں تو وہ لینے سے انکار کر دیتی کیونکہ بچے کے یتیم ہونے سے زیادہ انعام نہیں ملتا تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ کے کمزور ہونے کی وجہ سے کسی نے بھی آپ کو بچہ نہ دیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی قسمت کا ستارہ چمکا آپ نے آپﷺ کو قبول کر لیا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس در یتیم کو لے کر جا رہی ہیں جس سے ان کے گھر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اجالا ہونے والا تھا۔ جب حضرت حلیمہ آپ ﷺ کو لے کر خیمے میں پہنچی اور دودھ پلانے بیٹھیں تو اللہ کی رحمت سے آپ چھاتی میں اتنا دودھ آیا کہ آپ ﷺنے بھی اور آپﷺ کے رضائی بھائی نے بھی خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ آپ فرماتی ہیں کہ میرے شوہر نے اونٹنی کا دودھ دوہا اور ہم دونوں نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا۔
آپ فرماتی ہیں جب میں آپ ﷺکو گود میں لے کر اپنے خچر پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ سے جانے لگی تو میرا خچر اس قدر تیز ہو گیا تھا کہ کوئی بھی سواری اس کے قریب نہ پہنچ سکی۔ قافلے کی عورتیں کہنے لگیں اے حلیمہ یہ وہ ہی خچر ہے جس پر تم سوار ہو کر آئی تھی یا کوئی دوسرا ہے۔ آپ فرماتی ہیں جب ہم گھر پہنچے تو قحط پڑا ہوا تھا۔ ہر طرف خشک سالی تھی بکریوں کے تھنوں سے دودھ خشک ہو چکا تھا مگر میرے گھر قدم رکھتے ہی بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ (مدارج النبوہ) اسی طرح حضرت حلیمہ سعدیہ دو سال آپ ﷺکی نشو نما کرتی رہیں اور برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹتی رہیں اور دو سال بعد آپ ﷺ کو آپ کی والدہ ماجدہ کے حوالے کر دیا اور انہوں نے آپ رضی للہ تعالی عنہا کو انعام و اکرام سے نوازا۔ ( زرقانی )