تجا ہلِ عا رفانہ توقعات اورخدشات!!
کہتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو سب ہرا ہرا دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں صرف دو موضاعات زیر بحث ہیں۔ اشرافیہ کے لیے الیکشن ایک سلگتا ہوا موضوع ہے۔ ہر پارٹی سمجھ رہی ہے کہ وہ پاپولر ہے اور اس مرتبہ وہی جیتیں گے۔ اس خوش فہمی میں علی الترتیب ن لیگ سر فہرست ہے۔ ن لیگ سمجھ رہی ہے کہ وہ میدان مار لیں گے۔ دوسرے نمبر پیپلز پارٹی کا مورال بہت ہائی ہے۔ تیسرے نمبر پر جے یو آئی(ف) سمجھ رہی ہے کہ اس بار سیٹیں اور وزارتیں انھیں زیادہ ملیں گی۔ جبکہ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی والے اپنی اپنی بولیاں لگانے کی کو شش کر رہے ہیں۔ دورہ امریکہ کے دوران نگران وزیر اعظم کے امریکی ادارے کو دئیے گئے انٹر ویو میں جب سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن ممکن ہے تب سے ن لیگ کی باچھیں کھلِی ہوئی ہیں۔ شہباز شریف کا پاکستان آکر دو دن بعد ایمرجنسی میں دوبارہ لندن جانا، مریم نواز کا لندن جانا اور ن لیگ کی اکثر قیادت لندن میں ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ بڑا شور اور ہنگامہ تھا کہ شہباز شریف کو ئی اہم پیغام لیکر لندن گئے ہیں۔ میٹنگ میں انکشاف ہوگا، بڑی پےشرفت ہو گی، نیا فےصلہ سامنے آئیگا۔
لیکن ملّا نصیر الدین کے شور بے کے شوربے کا شوربہ ہی نکلا۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق ایک ڈھنگ کی خبربھی برآمد نہ ہوئی۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ لہو کا نہ نکلا
سچ تو یہ ہے کہ اب اِن تلِوں میں تیل ہی نہیں ہے۔ صحےح تو یہی ہے کہ بابا جی کا فرمان ہی سچ نظر آرہا ہے کہ لو گ بکواس کرتے ہیں کہ نواز شریف آئیگا تو حالات بدلیں گے۔ نواز شریف نے پچھلے تین ادوار میں اپنی اولادوں کی تقدیریں بدلیں، تو کیا اب وہ قوم کی تقدیر بدلے گا۔ اسی طرح بابا جی سے کسی نے کہا کہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ نواز شریف آتے ہی مہنگائی ختم کر دے گا اور پاکستان کی معےشت بہتر ہو جائے گی۔ پاکستان تےز ی سے ترقی کر ے گا۔ نوازشریف عوام کو غربت کی دلدل سے نکال دے گا۔ بابا جی یہ فرمودات سن کر دیر تک ہنستے اور لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ بولے بچی کےسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔
اب کوئی اس جہاندیدہ نانی اور دادی سے پوچھو کہ نواز شریف کیا ایون فیلڈ بیچ کر پاکستان کے قرضے ادا کرنے آ رہا ہے یا قومی خزانے کی لوٹی ہوئی رقم لیکر معےشت ٹھیک کرنے آ رہا ہے یا پھر پورے خاندان کے اثاثے فروخت کر کے غریبوں کے لیے دولت لیکرآرہا ہے جو پاکستان سے غربت ختم ہو جائے گی۔ باباجی بولے میں تو سمجھتا تھا کہ ساٹھ سال کی عمر میں مرد ہی سٹھیا جاتے ہیں۔ کیا خبر تھی مریم بٹیا ساٹھ سال سے دو برس پہلے ہی سٹھیا جائے گی۔ پاکستان میں دوسرا سلگتا ہوا موضوع مہنگا ئی ہے۔ جس نے پاکستانیوں کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اس وقت پچےس کروڑ عوام کے منہ سے دو ہیاں،بد دعائیں، گا لیاں اور مغلظات کے سِوا کچھ برآمد نہیں ہو رہا ہے۔ پوری قوم پر نزاع کا عالم طاری ہے۔ کسی کو الیکشن سے دلچسپی نہیں بلکہ اب ہر شخص ببانگ دہل کہہ رہا ہے ہم الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے اور کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جس شخص کو روٹی کے لالے پڑے ہوں، جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہوںاور جو بلوں کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور ہوں۔ وہ اس مرتبہ ووٹ نہیں، امیدواروں کو پتھر ماریں گے۔ الیکشن کا کیا فائدہ وہی چور ڈاکو لٹیرے منافق خود غرض لالچی اور ابن الوقت پھر سروں پر مسلط ہو جائیں گے۔ بد قسمتی سے چیف الیکشن کمشنر بھی غیر جانبدار نہیں لگتے۔ امیدواروں کے لیے گریجویٹ، ایماندار، با کردار اور اعلیٰ اخلاق سے مزین ہونا چا ہیے مگر یہاں تو ہر امیدوار داغدار، بد کردار، بدعنوان، بد نیت، بد اطوار اور بدبودار ہے۔ الیکشن میں کروڑوں لگا کر اربوں کماتے ہیں مگر ایک کام ملک کے لیے نہیں کرتے ہر سال بجٹ میں کھربوں روپیہ ترقیاتی کاموں کے نام پر اینٹھ کر کھا جاتے ہیں لیکن ساراسال ایک بلب تک نہیں لگواتے۔ اسحاق ڈار اور نثار چوہدری نے پانچ سال حلف تک نہیں لیا لیکن تمام تنخواہیں مرا عات فنڈز وصول کرتے رہے۔الیکشن کمیشن نے حلف لیے بغیر کروڑوں روپیہ کیوں وصول کرنے دیا؟ الیکشن کمشن نے انھیں نا اہل، غیر ذمہ دار اور غیر آےئنی کیو ں قرار نہ دیکر رکنیت خارج کی؟ آئین اور قانون کو موم کی ناک بلکہ پانی کی دھار بنا رکھا ہے کہ جہاں چاہے رخ موڑ دیا۔ اس لیے اس مرتبہ بھی الیکشن کمیشن انھی دو نمبرلوگوں کو ہنسی خوشی لائے گا جنھوں نے معیشت اجاڑ ڈا لی۔
سوال یہ ہے کہ شہباز شریف بطور وزیراعظم وفود کے ساتھ ایک در جن سے زائد مرتبہ سولہ مہینوں میں بھائی سے مشورے اور آشیر باد لینے لندن جاتے اور قومی خزانے کو چونا لگا تے رہے۔ سو لہ ماہ حکومت نواز شریف کے ایمائ پر چلتی رہی جس سے آج ہر پاکستانی فقیر اور کنگال ہو گیا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کے شہباز شریف نے اپنا سیاسی کیر ئیر تباہ کر لیا ہے۔ یہ سوشل مےڈیا کا دور ہے لہذا آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی۔ پاکستان میں ہر آدمی شہباز شریف سے نالاں اور متنفر ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے بعد نگراں وزیر اعظم سے کو ئی امید رکھنا بیوقوفی ہے۔
اسی طرح نواز شریف 21اکتوبر کو ہر گز واپس نہ آئیں گے بلکہ20 اکتوبر کو انکے سخت بیمار ہونے کی اطلاع آ جائے گی۔شہباز شریف کے خلاف پوری قوم کھڑی ہے۔ امکان یہی ہے کہ بلاول بھٹو کے حصہ میں وزارتِ اعظمیٰ آئے گی۔ اس وقت پاکستان کی باگ دوڑ اور قسمت صرف اور صرف دو آدمیوں کے ہاتھ میں ہے کہ جنرل عاصم منیر کو ئی ٹھوس اور مثبت قدم اٹھائیں۔ اس قوم کو چوروں لٹیروں سے بچائیں۔ دوسرے چیف جسٹس قاضی فا ئز عیسیٰ تما م ملزموں کو کٹہروں میں لائیں اور اِ س دکھیاری قوم کو بازیگروں، مداریوں، جواریوں، لٹیروں سے بچائیں۔ ہر گنہگار کو سزا دیں۔