سیاسی تاریخ میں ہمیشہ وہ شخصیات زندہ رہتی ہیں جو ملک و قوم کے ساتھ اپنی وفاداریاںہر مشکل گھڑی میں ثابت کرتی ہیں ، ایسے دیر پا فیصلے کرتی ہیں اورمستقبل ان کے فیصلوںکو درست ثابت کردیتا ہے یہاں جمہوریت کا نعرہ توہر جماعت لگاتی ہے مگر ملک بچانے کی جب بات آتی ہیں تو چند لوگ ہی ساتھ دیتے نظر آتے ہیں ۔ اگر ہم ماضی کے جھروکوں سے نظر دوڑائیں تو نوابزادہ نصراللہ(مرحوم)،ملک معراج خالد (مرحوم)جیسی شخصیات اس سانچے میں مکمل فٹ نظر آتی ہیں ۔ایک بہترین قائد کے اوالین فرائض میں نئی نسل کے سیاسی کارکنوں کی تربیت کرنا،پارلیمنٹ کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی ، منصفانہ و مستحکم انتخابی عمل میں اپنا کردار ادا کرنا اوراپنے لوگوں کو سیاسی جدوجہد کے لئے تیار کرنا ہوتاہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ بعض حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں آپادھاپی کا شکار ہیںتو موجودہ حالات میں نوابزادہ نصراللہ(مرحوم)،ملک معراج خالد (مرحوم)جیسی شخصیات کے بعداگر اس سانچے میں کوئی تیسری شخصیت اس معیار پر پورا اترتی ہے تووہ صدر مملکت آصف علی زرداری ہیں ،جنہیں اپنوں غیروں اور یہاں تک بدترین سیاسی مخالفین نے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جیلیں کاٹنے والے سیاسی شخصیت بھی وہ ہی ہیں ،امام صحافت مجید نظامی جنت مکانی سیاست دانوں کے لئے ایک اطالیق کا درجہ رکھتے تھے ،بیشتر سیاستدان ،سیاست کے اسرارورموز سیکھنے کیلئے ان سے رہنمائی اور مشورہ لیا کرتے تھے ، قید کے دوران آصف علی زرداری کی ہمت ،جرأت اور حوصلے کو دیکھ کر معمار نوائے وقت مجید نظامی مرحوم نے انہیں ’’مر دحر ‘‘ کے خطاب سے نوازا،آصف علی زرداری کاوقتا فوقتا مجید نظامی سے ملنے کے لئے ان کے آفس آنا جانا رہا، جہاںوہ ملک کی سیاسی صورت حال پر بات چیت کرتے تھے ،اور مجید نظامی(مرحوم) کی بصیرت اور نگاہ نے انہیں ہر مشکل اور آزمائش کے وقت میں ملکی سیاست میں مرد حر پایا، اور پھر بعد میںان کے درست اور پائیدارفیصلوں نے ثابت کیا کہ وہ مجید نظامی (مرحوم ) کے اس ٹائٹل کے واقعی حقیقی حق دار ہیں ۔ جن کی نظر انتخاب نے اس خطاب کے لئے موزوں اور درست شخص کا چناؤ کیا ، وہ ملک کے ہر مشکل وقت میں ’’پاکستان کھپے‘‘ (پاکستان زندہ باد)کا نعرہ لگاتے نظر آئے ۔ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعدنصرت بھٹو (مرحومہ ) نے محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کے لئے جس شخصیت کوان کا جیون ساتھی چنا وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ بالکل درست فیصلہ ثابت ہوا۔یوں آصف علی زرداری ایک زیرک سیاست دان ہی نہیں بلکہ بہترین داماد،شوہر اور بطور والد گرامی بھی ایک موزوں ترین انتخاب ٹھہرے۔
1997 کے انتخابات میںجب پاکستان پیپلز پارٹی کو صرف 18نشستیں ملیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو بیرون ملک قیام طویل کرنا پڑا تو ان کی غیر موجودگی میںیہی وہ شخص ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا،ملک میں رہ کر انہوں نے مصائب ، آزمائشوں کا مقابلہ کیا اور جیلیں کاٹیں،14 مئی 2006 کو لندن میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے جس پر آصف علی زرادری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی مکمل پہرا دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب ملک میں ایک انتشار کی کیفیت شروع ہوئی توآصف علی زرداری نے اس نازک صورت حال کاتحمل مزاجی سے مقابلہ کیا اور اس بحرانی کیفیت میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور قوم کو ملک کے ساتھ جوڑے رکھا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلے صدر مملکت تھے جو باوقار طریقے سے 8ستمبر2013 کو ایوان صدر سے رخصت ہوئے ،ان کے 2008 میں صدر مملکت بنتے وقت یہ الفاظ آج بھی سنہرے حروف میں لکھے جاسکتے ہیں کہ ’’ہم سرخیاں نہیں تاریخ بنانے آئے ہیں‘‘۔اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ بھی ان کے سر جاتا ہے جس سے وفاق اور آئین پاکستان مضبوط ہوا ۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ علیحدگی پسند جماعتوں کی حوصلہ شکنی کی ۔پی پی پی کا یہ ہمیشہ سے نعرہ رہا ہے کہ فیڈریشن کو مضبوط کیا جائے،یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی بالادستی ،اداروں کی مضبوطی کی بات کرتی رہی ہے اور اسی کی تربیت بلاول بھٹو زرداری نے ان سے حاصل کی ہے پیپلز پارٹی نے شخصیات کو مضبوط کرنے سے ہمیشہ اجتناب ہی کیا ہے ،ملکی وسائل کو بڑھانے کی بات کی اور ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے فیصلہ کن اقدامات پیپلز پارٹی نے ہی لئے ہیں جس کی آج بھی ملک کواشد ضرورت ہے ۔آج آئینی ترمیم کے حوالے سے ملک میں جو بحرانی کیفیت ہورہی ہے اگر اس صورت حال کو ٹھیک کرنے کا ٹاسک آصد علی زرادری کو دیا جائے تو وہ اس کا پائیدا حل نکا ل سکتے ہیں جو سبھی جماعتوںکو قابل قبول بھی ہوگا۔ کیونکہ جو بردباری اور تحمل مزاجی صدر مملکت کے پاس ہے وہ شائد کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ آصف زرداری خود چل کر اپنے سیاسی حریفوں کے پاس گئے ہیںانہوں نے اپنے طرز عمل کے ذریعے نفرت کا جواب محبت سے دیا ،گالی کا جواب مسکراہٹ سے دیا اور دشمنی کے رشتے کو دوستی میں تبدیل کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ’’ ایک زرداری سب پے بھاری کا نعرہ بلکل درست نہیں ،میرا ماننا ہے کہ ایک زرداری سب سے یاری ‘‘ہی سب سے بہترین نعرہ ہے ،وفاق کی نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی سب اکائیوں کا ساتھ لیکر چلنے کی روش پر آج گامزن ہے پیپلز پارٹی نے کبھی سندھ یا کسی اور صوبے کی جماعت کا لیبل اپنے اوپر نہیں لگنے دیا،فیڈریشن کو مضبوط کرنے کی بات کی، شاید یہی وجہ ے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جب عہدے سے ہٹایا گیا تو اس وقت یہ باتیں زبان زد عام تھی کہ سندھ سے امخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنادیا جائے گا مگر آصف علی زرادری نے سندھ کی بجائے اس عہدے کے لئے راجہ پرویز اشرف کوپھر سے پنجاب سے منتخب کیا اور تعصب کے نظریے کو دفن کردیا۔موجودہ سیاسی تناظر میں پارلمینٹ اور اداروں کیو مضبوط کرنے کے لئے آج بھی جو سیاسی بصیرت آسف علی زرداری کے پاس ہے وہ کسی دوسرے شخص کے پاس نہیں ہے یوں کہا جائے کہ زرداری ایک سیاست کے انسٹی ٹیوٹ کا درجہ کھتے ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کیونکہ ان کی سیاسی بصیرے کے گواہ ان کے بدترین سیاسی مخالفین بھی ہیں کیونکہ وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ۔