خوشحال مستقبل کیلئے بہتر روزگار کی تلاش

ہمارے ہاں خوشحال اور بہتر مستقبل کیلئے تگ و دو کرنے والے افراد بعض اوقات وہ طے شدہ معاشرتی حدود بھی پھلانگ جاتے ہیں جن کی بعض حالتوں میں معاشرہ آئین اور مذہب قطعی اجازت نہیں دیتا۔ ہم لوگ تارک وطن کیوں ہوتے ہیں‘ یہی وہ دقیق نقطہ ہے جسے سمجھنے کیلئے قرآن پاک کا تفصیلی مطالعہ ناگزیر ہے۔Version Quranic ہے کہ بہتر مستقبل اور بہتر روزگار کے حصول کیلئے دنیا میں پھیل جائو کہ پروردگار عالم نے تمہارے لئے ہر طرح کے خزانے اور سہولتیں پھیلا رکھی ہیں اس لئے جائو اور اپنی کوشش و ہمت کے ساتھ اپنے پروردگار کی دی گئی ہر نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے انہیں تلاش کرو اور خوشحال ہو جائو مگر! بنیادی طور پر انسان چونکہ جلد باز اور ناشکرا واقع ہوا ہے‘ اس لئے اپنی خواہشوں کے طابع ہو کر قدرت کے ان فیصلوں کو اپنی سہولتوں میں ڈھالنے لگتا ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں گلہ اپنے رب سے کرتا ہے۔ اس ابتدائیہ کی ضرورت مجھے آج اس لئے محسوس ہوئی ہے کہ وطن عزیز کے روزافزوں بگڑتے معاشی‘ اقتصادی اور اب سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہر پڑھا لکھا اور نیم پڑھا لکھا نوجوان اپنے بہتر معاشی مستقبل کے حصول کیلئے کسی بھی قانونی اور غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کیلئے کوشاں ہے۔ جبکہ دوسری جانب برطانیہ‘ آئرلینڈ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ اٹلی‘ پرتگال‘ رومانیہ اور دیگر متعدد یورپی ممالک جانے کے حوالے سے ’’آسان ترین ویزے‘‘ کا حصول اور مذکورہ ممالک پہنچنے پر بھاری معاوضہ کے طریقہ کار پر درجنوں یوٹیوبرز اور وی لاگرز سہانے خواب دکھا کر خوب سے خوب تر کی تلاش میں گرداں بیں۔ بے روزگار نوجوانوں کا معاشی استحصال کرنے میں صبح و شام ایک کئے ہوئے ہیں۔ ورک پرمنٹ اور ورک ویزہ کسے کہتے ہیں‘ کسی بھی  ملک سے باہر جانے کیلئے وہاں کی مقامی زبان پر دسترس حاصل کرنا کہاں تک ضروری ہے‘ غیرممالک میں دوران قیام طے شدہ معاہدہ کے باوجود ملازمت اور نوکری اگر دستیاب نہیں ہوتی‘ تو بنیادی طور پر ذمہ دار کون ہوگا؟ سپانسر کرنے والی کمپنی یا ورک پرمنٹ جاری کرنے والا ایجنٹ؟۔ اگر اپنی بنک کرپسی ڈیکلیئر کرتا ہے تو بیرون ملک آنے والے شخص کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ ہیں بنیادی وہ چند ضروری سوالات جن کے بارے میں ملک چھوڑنے سے قبل جاننا انتہائی اہم ہے۔ خوشحالی اور بہتر مستقبل کیلئے غیرممالک آنے کا دوسرا طریقہ قطعی غیرقانونی اور انتہائی خطرناک ہے جسے کسی حال میں بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ غیرقانونی طریقہ ایجنٹوں کو بھاری رقوم دیکر بذریعہ کشتی مختلف سمندروں سے ہوتے ہوئے غیرقانونی طور پر یورپی ممالک داخل ہونا ہے جس میں زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ دنیا کے بعض خوفناک سمندروں میں بذریعہ کشتی غیرقانونی طور پر دوران سفر تیراکی کرتے ہوئے کسی من پسند ملک میں داخل ہونا‘ زندگی دائو پر لگانے سے کم نہیں کہ سمندری لہروں کے تھپیڑوں سے کسی بھی وقت موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس انتہائی خطرناک طریقہ کار سے اب تک یورپ‘ امریکہ اور آسٹریلیا کے سمندروں میں سینکڑوں افراد ڈوب چکے ہیں۔ اسے بھی ایک قومی المیہ کہہ لیں کہ ایجنٹوں کو بھاری رقوم دیکر غیرقانونی طور پر بیرون ملک آنیوالوں میں زیادہ تعداد ان پاکستانی نوجوانوں کی ہے جو بے روزگاری‘ غربت اور سیاسی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر امریکہ‘ کینیڈا‘ متحدہ عرب امارات‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ آسٹریلیا‘ پرتگال اور ہر حال میں برطانیہ آنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی طرح بعض ایجنٹ سادہ لوح افراد کو لیبیا کے راستے اٹلی اور پھر اٹلی سے براستہ سمندر دیگر یورپی ممالک بھجوانے پر لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ 
ایک حالیہ امیگریشن رپورٹ کے مطابق لیبیا سے اٹلی آنیوالے غیرقانونی افرادکی تعداد میں گزشتہ دو برس کے دوران مزید اضافہ ہوا ہے۔ 
چند مہینے قبل انگلش چینل عبور کرنے پر بھی ایک افسوسناک سانحہ رونما ہوا جس میں درجن سے زائد غیرقانونی افراد نے کشتیوں سے سمندر میں چھلانگیں لگائیں مگر سمندر کی یخ بستہ لہروں کا مقابلہ نہ کر پائے اور سمندر کی نذر ہو گئے۔ اسی طرح حال ہی میں عرب امارات میں بھی غیرملکیوں کے Expired اقاموں پر سخت احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ 
دبئی میں غیرملکیوں کے امور سے متعلق ڈیپارٹمنٹ کے معاون ڈائریکٹر بریگیڈیئر صلاح الفمزی نے مبینہ طور پر احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امارات میں مقیم وہ غیرملکی جن کے اقامے ایکسپائرڈ ہو چکے اور متعلقہ کمپنیوں نے انکے اقاموں اور ورک پرمنٹ کی تجدید نہیں کی، ایسے افراد کیلئے 2 ماہ کی مہلت ہے جو 30 اکتوبر کو ختم ہونے جا رہی ہے اس لئے ایسے تمام غیرملکی متعلقہ تاریخ تک اپنے اقاموں کے امور طے کرلیں۔ 
دنیا کے دیگر ممالک بھی غیرقانونی تارکین وطن کیخلاف سخت اقدامات کر رہے ہیں تاہم قابل افسوس امر یہ کہ پاکستانی نوجوانوں کے باعزت روزگار کیلئے پچھلے 76 برس سے کوئی بھی حکومت خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کر پائی جس کی وجہ سے پڑھا لکھا طبقہ آج بھی غیرقانونی اقدامات کرنے پر مجبور ہے۔ 
معروف صحافی اور نوائے وقت میں چند برس صحافتی خدمات سرانجام دینے والے آصف سلیم مٹھا لندن اور پاکستان سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے آجکل مالک ہیں‘ اپنے اخبار کے پلیٹ فارم سے ہر سال لندن میں کمیونٹی ایوارڈ تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا جس میں شعبہ صحافت‘ میوزک‘ تعلیم‘ ہیومن رائٹس‘ چیئرٹی ورک اور بزنس کمیونٹی میں اعلیٰ خدمات سرانجام دینے والی شخصیات کو تعریفی اسناد یادگاری شیلڈ اور میڈلز دیئے گئے۔ تیرب میں ارکان پارلیمنٹ رتھ کیڈبری‘  منجیت سنگھ‘ کونسلرز اور معززین کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔

ای پیپر دی نیشن