جنگ ستمبر وہ جنگ ہے جب ہندوستان غیر اعلانیہ بزدلوں کی طرح اپنی پوری قوت کے ساتھ پاکستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ ہندوستان اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ جیسے ہی وہ پاکستان پر حملہ کرے گا تو پاکستانی افواج اور پاکستانی قوم بوکھلاہٹ میں اور ڈر کے مارے لاہور شہر چھوڑ کے بھاگ جائے گی مگر آفرین ہے پاکستانی قوم پر۔ اس کے جذبے پر اور اس کے جری سپاہیوں پر جو قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی دشمن کے سامنے سینہ تان کر مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ چھ ستمبر کو مختلف پروگرام دیکھتے ہوئے سنتے ہوئے نوائے وقت کے سی او او لیفٹیننٹ کرنل ریٹائر سید احمد ندیم قادری کا ریڈیو پر انٹرویو سنا۔ کرنل ندیم صاحب چھ ستمبر کا ذکر کرتے ہوئے پورے جوش و جذبے سے بتا رہے تھے کہ سکول سے چھٹی کا اعلان ہونے پر گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ تمام بچے ، بڑے اور پوری قوم جوش و جذبے سے سرشار ہو کر بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کو تیار ہو گئی۔ 1965ء کا یہی وقت ہوگا رات 12اور دو بجے کے درمیان جب طاقت کے زعم میں مبتلا ہندوتوا کے پجاریوں نے گھٹا گھوپ اندھیرے میں اپنے ناپاک قدم پاک سرزمین پر رکھنے کی جسارت کی۔ دشمن اپنے تمام تر توپ خانے، اس دور کے لحاظ سے جدید ٹینک، تمام فضائی جدید بحریہ کی طاقت کے ساتھ زمین، فضا اور سمندر کے راستے بیک وقت حملہ آور ہوا تھا جس کے مقابلے میں ہمارے بوسیدہ توپ خانے، اٹھارویں صدی کی توپیں تھیں۔ دشمن تھری ناٹ تھری رائفلز اور ان گنت ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا۔ سخوئی جہاز مگ جہاز جدید ہنٹر جہازوں کے مقابلے میں ہمارے چند جہاز 107 اور سیبریز تھے۔ دشمن کے پاس ہر دور کی طرح جدید اسلحہ دفاعی ساز و سامان، دوسری طاقتوں کی حمایت اور ہر سہولت موجود تھی۔ جبکہ مقابلے میں سجدوں سے لبریز پیشانیاں، ایمان کی حرارت لیے جسم توکل اللہ اور صرف دفاعی اسلحہ تھا جو دشمن کی طاقتور یلغار کو اس وقت کے تجزیہ نگاروں کے مطابق صرف چند گھنٹے ہی روک سکتا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا اور یاد رکھا کہ حیدر کردار کے جانشینوں، خالد بن ولید کے شیروں، محمد بن قاسم، غزنوی، ابدالی اور ٹیپو کے سپوتوں نے ہر لحاظ سے برتر دشمن کو مشرق کے ہر محاذ پر پسپا کرنا شروع کیا۔
لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کی حفاظت کی خاطر قربانیوں کی لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جب ٹینکوں کے خلاف ہتھیار ختم ہو گئے تو بم جسموں سے باندھ کر ٹینکوں تلے لیٹ کر چونڈا کے مقام کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ رانی اور شیرنی نام کی دو بڑی پاکستانی توپوں کی گھن گرج سے دشمن کا توپ خانہ دہل گیا۔
دشمن اپنا توپ خانہ ٹینک اسلحہ اور یہاں تک کہ دشمن کے جنرل بھی اپنی جیپیں محاذ جنگ پر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ زمینی فوج کو لازوال فتح نصیب ہوئی جو رہتی دنیا تک مجاہدین کی سر بکف قربانیوں کی گواہ رہے گی۔ 7 ستمبر کے دن دشمن نے جب دیکھا کہ زمین ان پر تنگ کر دی گئی تو وہ اپنی پوری فضائی طاقت کے ساتھ آسمانوں کی جانب سے پاک فضائوں میں داخل ہوا جہاں اقبال کے حقیقی شاہین ہنڑ مگ اور سخوئی طیاروں کے منتظر تھے۔ اللہ اللہ۔ فضا نے اس سے پہلے یہ منظر نہ دیکھا ہوگا کہ ایک پوری سکوارڈن کے مقابلے میں صرف دو تین جہاز۔ اور پھر شاہینوں نے سات ستمبر کو ڈاگ فائیٹ فضا میں جنگی طیاروں کی آمنے سامنے جنگ میں وہ تاریخی ریکارڈ بنائے کہ آج بھی دنیا ایم ایم عالم اور ان کے ساتھیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے۔
اس حوالے سے ایک برتری دشمن پر پاکستان کو حاصل تھی کہ پاکستان کے پاس اس وقت جدید ترین طیارے ایف 107 تھے جو سپر سیٹنگ سپیڈ سے اڑتے ہوئے جاتے اور دشمن کے ہوائی اڈوں کو تباہ و برباد کر آ جاتے۔ یہاں تک کہ ان طیاروں نے بھارتی جہاز بمع پائلٹ گرفتار کر کے اپنی زمین پر اتارے۔ شاہین آج تک اپنا لوہا اللہ کی مدد اور ایمان کامل سے منوائے ہوئے ہیں۔ آٹھ ستمبر کے دن دشمن کا پلان تھا سمندری راستے سے حملہ آور ہو کر پاکستان کے سمندری علاقوں پر قبضہ کرنے کا تاکہ زمینی اور فضائی جنگ کی معرکہ آرائی ہو لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ طارق بن زیاد اور ٹیپو سلطان کے جان نشین سمندر پر کڑا پہرا دے رہے ہیں۔ یہاں دشمن کی سازش پہلے ہی معلوم ہو گئی۔ آٹھ ستمبر کے دن پاکستان نیوی کے بحری جنگی جہازوں نے بھارت کے ساحل پر حملہ کیا اور دوارکا اپریشن سومنات کے دوران بھارتی ریڈار اسٹیشن کو تباہ کیا۔ پاکستان کی آبدوز غازی کا خوف بھارتی نیوی کے جہازوں پر چھایا رہا اور غازی نے سمندر پر اپنی بالاد دستی قائم کیے رکھی۔ 17 دن کی اس مختصر جنگ نے بھارتیوں کی گولڈن سٹار ڈاکٹرین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ دنیا کی تاریخ میں موجودہ دنیا نے 1400 سال پہلے کے عظیم مسلمان جرنیلوں کی جھلک دیکھی اور تسلیم کیا کہ ہاں عمر بن خطاب علی حیدر کرار، سیف اللہ خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، سلطان ارتغرل، سلطان محمود غزنوی، سلطان عبدالعلی کی روحانی اولادیں اس دنیا میں ابھی موجود ہیں جو اپنے آبا و اجداد کی رسم کو نبھانا جانتی ہیں۔ آج پاکستان کا کوئی ایک دشمن نہیں اور ان بزدل دشمنوں نے آج قوم کے اس جذبے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی اور فوج اور عوام کو مد مقابل لانے کی کوشش کی مگر دشمن کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ بے شک افواج پاکستان ملک کی بقا اور سلامتی کی ضامن ہیں۔