موجودہ حکومت نے عدالتی نظام میں بہتری اور اصلاحات کے لئے قانون سازی کا مسودہ تیار کیا ہے جس کی منظوری کی کوششیں جاری ہیں۔ اس بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ خالصتاً نیک نیتی کی بنیاد پر عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی خاطر عدالتی نظام کے متعلق قانون سازی کی جارہی ہے اور اپوزیشن کو اس کار خیر میں ہمارا ساتھ دینا چاہئے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے اس قانون سازی کو ہر صورت پارلیمنٹ میں ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہ معاملہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی طور پر متنازعہ بنایا گیا ہے جس میں حکومتی وزیروں کے اپنے بیانات کا بڑا دخل ہے کہ جنہوں نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کے لئے قانون سازی کی بات کی۔ حالانکہ ملک میں انصاف کی فراہمی کا موجودہ نظام سب کے سامنے ہے کہ جس میں سائل کو تین نسلوں بعد تک انصاف ملنا مشکل ہوچکا ہے۔ دیر سے انصاف ملنا‘ بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے۔
ملک میں عدالتی نظام کے متعلق موثر قانون ساز ی کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں سیاسی الجھاؤ کے بجائے اتفاق رائے سے مل بیٹھ کر خلوص نیت سے عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کی نیت سے بہترین قانونی مسودے کی منظوری کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو دیوانی مقدمے میں زیادہ سے زیادہ ایک سال اور فوجداری میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں انصاف مل سکے اور اسی طرح ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی اپیلوں پر چھ ماہ کے اندر فیصلے کرنے کے پابند بنادیئے جائیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ڈویڑن بنچ بڑھائے جائیں تاکہ دور دراز سفر سے عوام کو بچایا جاسکے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ لوگ دور دراز سفر کرکے عدالتی تاریخ پر پہنچتے ہیں اور کیس کی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ نئی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ اس میں عدالتی عملے کی ملی بھگت سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی جاتی ہے۔ اس وقت ڈسٹرکٹ کورٹس‘ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں لاکھوں کیس زیر التوا ہیں۔ اس بارے میں پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو بہت سے معاملات میں متفقہ موثر قانون سازی اور اس پر مکمل عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔
موجودہ قانونی نظام کی چند ذاتی مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے قارئین کوانصاف کی فراہمی کی موجودہ صورتحال کا درست علم ہوسکے گا۔ میرے 2آئل ٹینکرز 2008-09ء میں نیٹو سپلائی کے دوران نذر آتش کئے گئے تھے۔ ان میں سے ایک کا کیس کراچی میں انشورنس ٹریبونل میں اب تک زیر سماعت ہے اور اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ اسی طرح ایک کیس لاہور میں تھا جس کے بارے میں میں نے 60سال سے زائد عمر ہونے کی وجہ سے Hearing Early کی درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ارسال کی تو انہوں نے متعلقہ عدالت کو حکم دیا کہ کیس کی ایک ماہ میں سماعت مکمل کرکے فیصلہ دیا جائے۔ جب ایک ماہ تک فیصلہ نہیں ہوا تو میں نے دوبارہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو درخواست دی جس پر انہوں نے ایک بار پھر متعلقہ عدالت کو حکم دیا کہ 3ماہ میں کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے فیصلہ دیا جائے۔ پھر تین ماہ میں ہمارے حق میں فیصلہ آگیا تو انشورنس کمپنی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کردی۔ لاہور ہائی کورٹ میں فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو انشورنس کمپنی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرکے لاہور ہائی کورٹ سے ایک بار پھر رجوع کرنے کا حکم دیا۔ انشورنس کمپنی نے اب لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے اور تاحال ہم فیصلے کے منتظر ہیں۔اس کیس میں ہم نے بھاری رقوم انصاف کے حصول کے لئے خرچ کی ہیں لیکن تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔
اسی طرح میرے بھتیجے نے برطانیہ سے آکشن میں لینڈ کروزر خریدی اور پاکستان پورٹ قاسم کراچی پر بحری جہاز کے ذریعے بھیجی جس کی ڈیوٹی پورٹ قاسم پر ادا کی گئی۔ اسکے بعد گاڑی کو اسلام آباد میں میرے بیٹے کے نام رجسٹرڈ کیا گیا اور کئی سال ہماری فیملی کے زیر استعمال رہی۔ لاہور میں کسٹم نے اس گاڑی کو ٹیمپرڈ قرار دیکر2017ء میں مقدمہ درج کردیا۔ ہم نے عدالت میں تمام ثبوت پیش کئے اور عدالت نے خود بھی کاغذات Verify کرائے جس کے بعد ہمارے حق میں فیصلہ آگیا۔ کسٹم نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کردی جس پر ہائی کورٹ نے کسٹم ٹریبونل سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔ کسٹم حکام نے ٹریبونل میں اپیل کی جس پر ہمارے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود گاڑی ہمیں واپس نہیں کی گئی بلکہ کسٹم ٹریبونل کے فیصلے پر ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے اسٹے دے دیا۔ حالانکہ جب پہلے لاہور ہائی کورٹ نے کسٹم ٹریبونل بھیجا تھا اور وہاں ٹرائل مکمل چلا تو اب ہائی کورٹ کو اس کے متعلق فوری فیصلہ دے دینا چاہئے۔ اس کیس میں بھی ہم نے بھاری رقوم انصاف کے حصول کے لئے خرچ کی ہیں لیکن تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔
میرے پارٹنر نے جوکہ اوورسیز پاکستانی ہیں، 20-25سال پہلے شاہ لطیف ٹاؤن کراچی میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا پلاٹ خریدا تھاجس پر علاقے میں آبادی ہونے کے بعد قبضہ ہوگیا تھا۔ قبضہ مافیا کے خلاف قانون تو موجود ہے جس میں غیر قانونی قبضہ ثابت ہونے کے بعد جج پابند ہے کہ قابض سے نہ صرف جائیداد واگزار کراکے متاثرہ فریق کو واپس کرائے بلکہ قابض شخص کو جرمانہ اور قید کی سزا دی جائے اور اس قانون میں جج پابند ہے کہ 3ماہ میں اپنا فیصلہ صادر کرے۔ قانون بنانے کی حد تک تو یہ ایک بہترین قانون ہے لیکن جب عملی طور پر میرے اوورسیز پارٹنر نے اس قانون کے تحت کیس درج کرایا تو سالہا سال تک فیصلہ نہیں آیا۔ ہمیں مجبور ہوکر قابض مافیا سے سمجھوتہ کرنا پڑا کیونکہ انصاف میں تاخیر کے باعث موجودہ نظام آپ کو ظالم سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
اوورسیز کو پاکستان میں کوئی تحفظ نہیں اور ان کی جائیدادوں پر قبضے ہوتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہر حکومت میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے اوورسیز طویل قانونی چارہ جوئی سے اکتا کر اونے پونے میں فیصلہ کرکے اپنا سارا سرمایہ سمیٹ کر ملک سے چلے جاتے ہیں۔ اگر اوورسیز کو مکمل قانونی تحفظ دیا جائے اور ان کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیا جائے تو یقینی طور پر پاکستان میں بیرون ملک پاکستانی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کریں گے لیکن بدقسمتی سے اس معاملے پر کسی کی توجہ نہیں اور سیاستدان اپنی ذاتی ضد‘ انا اور اقتدار کے حصول کی سیاست تک محدود ہیں۔ اوورسیز کے لئے مناسب قانون سازی سے اوورسیز پاکستانیوں کی ملک میں سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جن کا مقصد ملک میں انصاف کی فراہمی کے موجودہ نظام کی جھلکیاں پیش کرنا تھا۔ عام آدمی جس کی زندگی کی جمع پونچی کا انحصار ہی کسی ایک کیس پر ہو اور موجودہ نظام انصاف میں اسے انصاف کے حصول کے لئے دھکے کھانے پڑیں اور بچا کھچا سرمایہ بھی کیس لڑنے پر خرچ کردے تو اس کی حالت کیا ہوگی؟ آئے روز نظام انصاف کی خامیوں کے متعلق خبریں آتی ہیں۔ اس معاملے کو حل کرنے والے عام آدمی کی دعائیں لیں اور سیاست کو پس پشت رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ اگر قانون میں کسی کیس کا فیصلہ کرنے کے لئے مدت کا اندراج ہو اور پھر بھی جج مقررہ وقت میں فیصلہ نہ دے تو اس جج کے خلاف سخت کارروائی کا موثر مکینزم ہونا چاہئے۔ یہی بات گزشتہ روز خبروں کی زنیت بنی کہ حکومتی ترجمان نے کہا کہ جو جج کام نہ کریں ان کا محاسبہ کرنے کا موثر نظام بنایا جانا چاہئے لیکن اس تمام کوشش کو سیاسی رنگ دے کر الجھانا درست نہیں ہے۔
عدالتی امور پر قانون سازی پر حکومت نے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ سنجیدگی سے اس معاملے پر مؤثر قانون سازی اور ججوں سے جوابدہی کا مؤثر پلیٹ فارم بنانے کے لئے خلوص نیت سے متفقہ قانونی مسودے کی تیاری اور منظوری کے لئے حکومت سے مل بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اس معاملے میں طرفین کی جانب سے غیر ضروری بیان بازی اور اسے سیاسی اُلجھاؤ کا شکار کرنا عوام کے ساتھ ایک اور ظلم ہوگا۔ عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
عدالتی نظام سے متعلق قانون سازی
Sep 26, 2024