پنجاب کے کالجوں میں مردوں کا استحصال

پنجاب حکومت کے محکمہ ہائر ایجوکیشن نے ایک لمبے عرصے سے یہ پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کہ مردانہ کالجوں میں گریجوایشن یا بی ایس کی سطح پر نہ صرف لڑکیوں کو داخلہ دیا جاتا ہے بلکہ خواتین اساتذہ کو بھی وہاں تعینات کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو لڑکوں کے داخلے کے لیے سیٹیں کم ہو جاتی ہیں اور دوسری جانب مرد اساتذہ کی مردانہ کالجوں میں تعیناتی کے سلسلے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے چند سال میں صورتحال اتنی زیادہ بگڑ چکی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر خواتین اساتذہ کو مردوں کے کالجوں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ بہت سی جگہوں پر عورتوں اور مردوں کے کالج ساتھ ساتھ ہیں اور وہاں خواتین کے کالج میں سیٹیں خالی پڑی ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین اساتذہ کو وہاں تعینات کرنے کی بجائے مردانہ کالجوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی خاتون کو زنانہ کالج میں تعینات کیا گیا تو اس نے سفارش یا کسی بھی اور طریقے سے اپنا تبادلہ اس زنانہ کالج کے ساتھ ہی واقع مردانہ کالج میں کرا لیا۔
اس سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ خواتین مردوں کے کالجوں میں جانا کیوں پسند کرتی ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ خواتین اساتذہ کو عورتوں کے کالجوں کے مقابلے میں مردوں کے کالجوں میں زیادہ سہولیات ملتی ہیں۔ مردوں کے کالج میں عام طور پر پرنسپل اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مرد ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں چھٹی یا کام میں رعایت لینے کے لیے خواتین کا اتنا کہہ دینا ہی کافی ہوتا ہے کہ میری طبیعت خراب ہے۔ مرد جواب میں ان سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ آپ کی طبیعت کو کیا ہوا ہے۔ اس کے برعکس عورتوں کے کالجوں میں جب خواتین اساتذہ کہتی ہیں کہ میری طبیعت خراب ہے تو خاتون پرنسپل یا خاتون ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تفصیل سے پوچھتی ہیں کہ طبیعت کو کیا ہوا ہے اور پھر عام طور پر جواب میں کہتی ہیں کہ آپ جیسے مسائل کا شکار دیگر خواتین بھی یہاں موجود ہیں، لہٰذا آپ بھی بیٹھیں اور کام کریں۔
پنجاب میں کل 825 سرکاری کالج ہیں جن میں سے 448 کالج خواتین کے ہیں اور 377 مردانہ ہیں، یعنی 54 فیصد سے زائد کالج خواتین کے ہیں۔ علاوہ ازیں، خواتین کی یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں اور وہ یونیورسٹیاں بھی ہیں جہاں مخلوط تعلیم کا نظام رائج ہے۔ اس سب کے باوجود لڑکیوں کو مردانہ کالجوں میں داخلہ دینا اور خواتین اساتذہ کو مردوں کے کالجوں میں تعینات کرنا سراسر زیادتی ہے۔ اس سلسلے میں نہایت اہم بات یہ ہے کہ جب خواتین اساتذہ کو مردوں کے کالجوں میں تعینات کیا جاتا ہے کہ سرکاری ریکارڈ میں مردوں کی خالی سیٹیں کم ہوتی جاتی ہیں اور عورتوں کی خالی سیٹیں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں تبادلوں اور بھرتیوں کے موقع پر خواتین کی اسامیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہی صورتحال ترقیوں کے سلسلے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ مردوں کی سیٹوں پر عورتوں کے بیٹھے ہوئے ہونے کی وجہ سے مردوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران اس پوری صورتحال سے بخوبی واقف ہیں اور مختلف مواقع پر اساتذہ احتجاج کر کے یہ بتاتے بھی رہتے ہیں کہ وہ اس سب کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ان مسائل کو حل نہیں کیا جارہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صورتحال کے خلاف صرف مرد ہی احتجاج نہیں کررہے بلکہ کئی خواتین بھی اس سلسلے میں احتجاج کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو خواتین کے کالجوں میں بھیجا جائے اور مردوں کو مردوں کے کالجوں میں تعینات کیا جائے۔ اگر کسی سنجیدہ مسئلے کی وجہ سے کسی خاتون کی کسی مردانہ کالج میں تعیناتی یا تبادلہ ناگزیر ہو جائے تو پھر اس خاتون کو خواتین کے کسی کالج سے سیٹ سمیت عارضی طور پر مردانہ کالج میں بھیجا جائے تاکہ مردوں کی سیٹیں متاثر نہ ہوں۔ یہ مطالبات مسلسل ہورہے ہیں لیکن محکمے کے افسروں کی طرف سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مردانہ کالجوں میں سیٹیں نہ ملنے کی وجہ سے مردوں کو دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے جہاں انھیں حکومت کی طرف سے رہائش وغیرہ کی سہولیات نہیں دی جاتیں۔ اس صورتحال میں ان کے اہل خانہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مرد بھی اپنے کام پر ٹھیک سے توجہ نہیں دے پاتے اور ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں ہو پاتیں۔ اسی طرح کی صورتحال دو تین ہفتے پہلے اس وقت دیکھنے کو ملی جب مردوں کی لیکچرار سے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ترقیاں ہوئیں۔ محکمے نے جب یہ عندیہ دیا کہ زیادہ تر مردوں کو اپنے شہروں کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں جانا ہوگا تو کئی لوگوں نے ترقی لینے سے انکار کردیا اور واضح طور پر بتایا کہ ان کے گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ دوسرے شہروں میں جا کر پیشہ ورانہ فرائض انجام دیں۔
اس بارے میں ایک نقطہ نظر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر لڑکیوں اور خواتین اساتذہ کو مردانہ کالجوں میں بھیج رہی ہے کہ جب زنانہ کالجوں میں طلبہ اور خواتین اساتذہ کی تعداد بہت کم رہ جائے گی تو حکومت کہے گی کہ ان کالجوں پر سرکاری وسائل ضائع ہورہے ہیں، لہٰذا انھیں بند کرنے یا نجی ملکیت میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مسئلے کا ایک رخ یہ ہے کہ جب لڑکوں کے مزید پڑھنے کے امکانات کم ہوتے جائیں گے تو وہ بیروزگاری اور مسائل سے تنگ آ کر جرائم کی طرف جائیں گے۔ علاوہ ازیں، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں انھیں شادی کے لیے ایسے لڑکوں کی ضرورت ہوگی جو کم از کم ان جتنے تعلیم یافتہ ہوں تاکہ ذہنی ہم آہنگی قائم ہوسکے۔ ان سب باتوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ سادہ سا نظر آنے والا یہ مسئلہ بہت سے مسائل کی بنیاد بن رہا ہے جن کے حل کے لیے صوبائی حکومت کو فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔

مشفق لولابی--- سماج دوست

ای پیپر دی نیشن