بھارت کا کوئی ہمسایہ ملک بھارتی جارحیت اور توسیع پسندانہ عسکری عزائم سے محفوظ نہیں۔نیپال ، سری لنکا، مالدیپ ،بھوٹان اور پاکستان بھارت کی جنگی جھڑپوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں،پاکستان ہرسال بھارت کی آبی جارحیت کا نشانہ بنتاہے ، بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر اور دیگر راستوں سے پاکستان میں آنے والے راوی ، جہلم اور چناب سمیت تمام دریائوں پر سینکڑوں ڈیمز تعمیرکرلئے ہیں ، اب وہ جب چاہے پاکستان کا پانی بند کرکے ہماری فصلوں کو بنجر بنادیتا ہے اور جب چاہے ،مون سون اور بارشوں کے سیلابی موسم میں انہیں ڈبو کر اربوں روپے کے مالی و جانی نقصان کا مرتکب ہوتا ہے ، مگر کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ نہ جانے اقوام متحدہ اورعالمی عدالت انصاف کا ضمیر کب جاگے گا؟ حکومت پاکستان عالمی امن و ترقی کے دعویدار عالمی اداروں ،عدالتوں کا دروازہ مؤثر انداز میں کب کھٹکھٹائے گی؟
آج چاروں طرف سے بھارتی سرحدوں میں گھرا ہوابنگلہ دیش بھارت کی خوفناک آبی و سیلابی جارحیت کی زد میں آیا ہوا ہے اوربھارتی دریائوں گنگا و جمناکی سیلابی لہروں میں اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب سے نبردآزما ہے، جس میں مختلف صوبوںکے 50 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ مجموعی طور پر مشرقی بنگلہ دیش میں 34 سالوں میں بدترین سیلاب نے 5.6 ملین افراد کو متاثر کیا ہے اور بنگلہ دیش میں 20 لاکھ سے زائد بچے خطرے میں ہیں کیونکہ سیلاب گھروں، اسکولوں اور دیہاتوں میں بہہ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وسطی، مشرقی اور جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں سیلاب سے 23 افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوسکی ہیں جبکہ57 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ 180 ملین افراد پر مشتمل ملک کے 11 اضلاع میں تقریباً 1.24 ملین خاندان پھنسے ہوئے ہیں، جو مون سون کی مسلسل بارشوں اور دریاؤں کے سیلابی پانی کی وجہ سے ملک کے باقی حصوں سے کٹے ہوئے ہیں۔
جنوب مشرقی بنگلہ دیش سیلابی بحران کا شکار ہے۔ فینی، کومیلا اور نواکھلی کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں سڑکیں اور شاہراہیں زیر آب آنے سے پوری کمیونٹیز کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
تاہم مذکورہ ڈمبورڈیم کا تقریباً 30 میٹر (100 فٹ) اونچا ڈھانچہ، بنگلہ دیشی سرحد سے 120 کلومیٹر (75 میل) سے زیادہ دور ہے۔ یہ بجلی پیدا کرتی ہے جو بنگلہ دیش کے زیر استعمال گرڈ میں حصہ ڈالتی ہے اور دریائے گمتی پر بنائی گئی ہے، جو بنگلہ دیش میں میگھنا کے ساتھ مل جاتی ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی ریاست تریپورہ کو بھی شدید سیلاب کا سامنا ہے، جس میں 31 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے اور 100,000 سے زیادہ رہائشیوں کو ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ بھارت میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے تقریباً 17 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔بھارت اپنے متاثرین سیلاب کو ریلیف دینے کی بجائے ہمسایہ ممالک کو بھی ڈبونے میں مصروف ہے۔
لکشمی پور کے رہائشی 41 سالہ قمر الحسن نعمانی نے الجزیرہ کو بتایا کہ سیلاب کا پانی ان کے گھر میں گھٹنوں تک ہے اور اس کے ایک بڑے حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ڈیم کھلے بغیر ان کے گاؤں میں اتنی زیادہ بارش نہیں ہو سکتی تھی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان نے جان بوجھ کر بغیر کسی وارننگ کے ڈیم کو کھولا ہے۔ نعمانی نے الزام لگایا کہ بھارت نواز شیخ حسینہ واجد کی زیرقیادت بنگلہ دیشی حکومت کی 15 سالہ حکمرانی کا اچانک خاتمہ ہوا۔ حسینہ واجداس وقت راتوں رات فرار ہوکرہندوستان میں سیاسی بنیادوں پرپناہ گزیں ہے۔اگرچہ ہندوستان نے سیلاب کی وجہ کے طور پر ضرورت سے زیادہ بارش کا حوالہ دیا تاہم 21 اگست کو تسلیم کیا کہ سیلاب سے متعلقہ بجلی کی بندش اور مواصلاتی خرابی نے بنگلہ دیش میں اپنے پڑوسیوں کو دریا کی معمول کی اپ ڈیٹس بھیجنے سے روک دیا۔
بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت کی قیادت کرنے والے نوبل امن انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کے پریس سیکرٹری شفیق عالم نے ڈھاکہ میں صحافیوں کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں ہندوستان کے ہائی کمشنر پرنائے ورما نے عبوری حکومت کو مطلع کیا کہ ڈیم سے پانی بلندسطح سے زیادہ اور اوورفلوہونے پرخود بخود چھوڑاگیا ہے۔
بنگلہ دیش میں فلڈ فورکاسٹنگ اینڈ وارننگ سینٹر کے ایک ایگزیکٹیو انجینئر سردار ادے ریحان نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایجنسی کو عام طور پر ہندوستان میں دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافے کے بارے میں دن میں دو بار معلومات ملتی ہیں۔تاہم اس بار ہندوستان نے کوئی اپ ڈیٹ شیئر نہیں کیا۔ درست معلومات کے بغیر سیلاب کی درست پیشن گوئی دینا مشکل ہوتاہے، انہوں نے مزید کہا کہ بروقت وارننگ موت اور نقصان کو روکنے میں مدد دے سکتی تھی۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر)کے ترجمان ولیم اسپنڈلر نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایاہے کہ بنگلہ دیش میں حالیہ تباہ کن اور بڑے پیمانے پر سیلاب نے بلاشبہ ملک بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے، بشمول کاکس بازار میں جہاں میانمار کے تقریباً 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزین اپنی بنگالی میزبان برادریوں کے ساتھ رہتے ہیں۔یو این ایچ سی آرUNHCR بنیادی امدادی اشیاء اور دیگر انسانی امداد فراہم کر رہا ہے تاکہ علاقے کی مقامی کمیونٹیز کی فوری ضرورتوں بشمول پناہ اور صحت کو پورا کیا جا سکے۔جس میں 350,000 پانی صاف کرنے کی گولیاں، 20,000 جیری کین، 15,000 حفظان صحت کی کٹس، اور 10,000 ہنگامی پناہ گاہیں شامل ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں الخدمت فائونڈیشن جیسی فلاحی این جی اوز بھارت کی عسکری اور آبی جارحیت سے متاثرہ بنگلہ دیشی عوام کی زندگیاں بچانے کیلئے متحرک ہوچکی ہوں گی جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔ یہ اتحاد کا لمحہ ہے -پاکستان کی حکومت ،اپوزیشن سمیت تمام ریاستی و قومی اداروں کواپنے کٹے ہوئے مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں کی خاطراپنے سیاسی و وقتی اختلافات اور جھگڑے بھلانا ہونگے جہنوں نے 1971ء کی تلخیوں کو بھلاکر،شیخ مجیب کے مجسمے کو سرعام گراکر،بھارت نواز حکومت کو چلتا کردیاہے۔آج وہاں پاکستان زندہ باد، امی(میں) کون، تمی(تما) کون… رضاکار، رضاکار ( 71ء کے غدار)کے نعرے لگ رہے ہیں۔اب تو ہمارے پاکستانی سپہ سالاراعظم جنرل عاصم منیر نے بھی بھارتی سورمائوں کو للکاراہے کہ کہاںہیں نظریہ پاکستان کو بحیرہ عرب میں ڈبونے والے… آ ئیں ہم سب مل کرانسانی بنیادوں پر،ڈوبتے ہوئے اپنے بازو بنگلہ دیش کو بچانے میں مدد کریں۔