نادرا میں آپریشن کلین اپ،151 افسر برطرف 82مستعفی۔
نادرا کا نام سنتے ہی ذہن میں سب سے پہلے پاکستان کی مشہور فلمی اداکارہ و رقاصہ نادرہ کا نام آتا ہے جو اپنی خوبصورتی اور رقص کی وجہ سے فلم بینوں کے دل موہ لیتی تھی۔ یہی خوبصورتی اور رقص بالآخر ان کی ناگہانی موت یعنی قتل کی وجہ بن گیا۔ اب یہ جو ہمارا ادارہ نادرا ہے اس کا کام بھی بہت بڑا ہے۔ ذمہ داری بھی بہت بڑی ہے۔ مگر کیا کریں یہاں بھی سیاسی مداخلت سفارش اوررشوت کی وجہ سے ایسے ایسے بڑے کارنامے انجام دئیے گئے ہیں کہ الحفیظ والامان ، ہزاروں نہیں لاکھوں غیر ملکی تارکین وطن کو مہاجرین کو پاکستانی شہری بنا دیا جو اپنے ممالک سے غلط کاموں کی وجہ سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔ اب شناختی کارڈ بنا تو وہ پاسپورٹ بھی بنا کر بیرون ملک جانے لگے۔ یوں منشیات کیس میں پکڑے گئے یا مختلف جرائم میں پکڑے گئے اور بدنامی پاکستان کی ہونے لگی۔ اب حکومت نے بالآخر نادرا پر گرفت کی ہے تو وہاں تھرتھلی مچ گئی۔ چاروں صوبوں میں ناجائز شناختی کارڈ بنانے والے افسران میں سے 151 نیک نام افسر پکڑے گئے اور 82 افسروں نے استعفے دینے میں عافیت سمجھی یہ کارروائی صرف 5 سالہ ریکارڈ پر ہو رہی ہے۔ ورنہ 1980ء کے بعد سے تو تھوک کے حساب سے سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے ہم خیال افغان مہاجرین کو جس طرح مشرف بہ پاکستان کیا اگر اس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ہوش اڑ جاتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہزاروں اب باہر غیر ممالک میں جا چکے ہیں۔ لاکھوں نے پاکستان میں گھر اور کاروبار جما لیا ہے۔ ان کی دوسری نسل اب یہاں اچھلتی کودتی پھرتی ہے۔ یہ سب نادرا کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ جہاں پیسے بٹورنے کی ریس لگی ہوئی تھی۔ اب بوگس کارڈ بنانے کی سفارش کرنے والوں کو بھی ذرا بے نقاب کیا جائے۔
بلاول کی 36 ویں سالگرہ پر مختلف شہروں میں تقریبات۔
آج کل مختلف شہروں میں پیپلز پارٹی کے جیالے اپنے نوجوان چیئرمین بلاول کی سالگرہ منا رہے ہیں جو خیر سے 36 برس کے ہو چکے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں تو خصوصی سیشن ہوا۔باقی مقامات پر بھی کیک کاٹے اور استقبالیے دئیے جا رہے ہیں۔ برسی ہو یا سالگرہ ان تقریبات میں جو عوامی رنگ پی پی کے کارکنوں کی وجہ سے آتا ہے، دوسری جماعتیں اس سے کامل محروم ہیں۔ زندہ ہے بھٹو، رانی بی بی بے نظیر کے بعد اب بلاول بھٹو زرداری زندہ باد کے نعرے اپنا سماں باندھتے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر کے نام پر آج بھی ہزاروں جیالوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ وہ یہ نام سنتے ہی دیوانہ وار چلے آتے ہیں۔ پنجاب میں اب وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ البتہ سندھ میں آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ بے نظیر اور زرداری کے دور میں جو کچھ سندھ کو ملا اس کے بعد تو وہاں کے ہاری، مزارعے، مزدور، سب کو صرف بھٹو خاندان سے محبت ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتی ہے۔ سندھ کے عوام کو حالات اور واقعات نے مضبوط کر دیا۔ ان کے لہجے کی تلخی اور نگاہوں کی حرارت بتاتی ہے کہ اب وہاں بھی نوجوانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ مگر فی الحال پی پی کا ووٹ بنک قائم ہے۔ اب آصف زرداری کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ سالگرہ سے آگے بڑھ کر اپنے فرزندہ کے سر پر سہرا سجانے کا انتظام کریں۔ تاکہ وہ اور کارکن " اسی بال کھڈائیے بلاول دے " کینعروں پر دھمال ڈالتے نظر آئیں۔اس عمر میں ہمارے نوجوان ایک دو بچوں کے باپ بن چکے ہوتے ہیں۔ کم از کم منگنی کے نام پر ہی کوئی خوبصورت تقریب منعقد کرکے کارکنوں کو ایک اور تقریب منانیکا موقعہ دیا جا سکتا ہے۔
بھارتی پنجابی فلم پاکستان میں اگلے ماہ ریلیز ہو گی۔
ایک طرف پاکستان پنجابی فلم ’’لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کی بھارت میں نمائش کے اعلان پر ہی بھارتی انتہا پسند سنیما گھر جلانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بزور طاقت پاکستانی فلم کی نمائش رکوا رہے ہیں۔ اس حساب سے تو ہمیں بھی کسی بھارتی فلم کو خواہ وہ پنجابی ہی کیوں نہ ہو ملک میں ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ یہ کوئی ناانصافی نہیں ہے۔ اگر ہماری فلمیں بھارت میں نہیں چل سکتیں تو ان کی فلمیں بھی ہم نہ چلنے دیں۔ ہاں اگر بھارتی پنجاب میں وہاں کی حکومت اپنے بل بوتے پر ہماری فلم چلاتی ہے تو پھر ہمیں بھی پنجاب میں بھارتی پنجابی فلم چلانے پر اعتراض نہیں ہو گا۔ ورنہ جوڑ بہرحال برابر کا ہونا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ کہتے ہیں موسیقی اور فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ مگر بھارت کی انتہا پسند متعصب جماعتیں اس بات کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ وہ کسی فلم کی تو بات چھوڑیں کسی پاکستانی اداکار، گلوکار کو بھارت میں پرفارم کرنے کا بھی موقعہ دینے کو تیار نہیں ، تو ہمیں یکطرفہ محبت کا بخار نہیں چڑھنا چاہیے۔ محبت ہمیشہ دوطرفہ ہوتی ہے۔ یکطرفہ محبت نہیں حماقت کہلاتی ہے۔ ایسی حماقت سے پرہیز ضروری ہے۔ بھارت کو مسئلہ صرف پاکستان سے نہیں وہ مسلمانوں سے وابستہ ہر نشانی کو مٹانا چاہتے ہیں مگر دیکھ لیں ایسا نہیں کر پائے آج بھی بھارت کی فلم انڈسٹری پر اردو کا راج ہے جسے بھارتی بے شرمی سے ہندی فلموں کا نام دیتے ہیں۔ بھارت کے گلی کوچوں میں آج بھی اردو زبان کے فلمی گیت گونجتے ہیں۔ دیگر زبانوں کو صرف اپنے اپنے صوبوں میں پذیرائی ملتی ہے جبکہ اردو کا بھارت پر راج ہے اور وہ انتہا پسندوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔
حافظ نعیم کی جماعت اسلامی کے 2کروڑ ممبران.بنانے کی پرجوش مہم جاری۔
حکومت کی طرف سے مسلسل بے اعتنائی کے بعد اب حافظ نعیم کا پارہ بھی ہائی ہونے لگا ہے۔ یہ تو شکر ہے وہ آج کل پورے ملک میں جماعت اسلامی کی ممبر شپ مہم چلانے میں مصروف ہیں جس کے لیے انہوں نے 2 کروڑ ممبر بنانے کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ جاں گسل مرحلہ ہے اس میں ایک صدی بھی لگ سکتی ہے مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ "پائیگدا لنگ نیست۔ ملک خدا تنگ نیست" تو وہ اور ان سے پہلے و الی جماعت کیقائدین اگر اس طرف توجہ دیتے تو آج ملک بھر میں نہ سہی کم از کم خیبر پی کے میں جماعتی راج ضرور ہوتا۔ وہاں کی سڑکوں پر دھرنے ہوتے اور جلسے جلوس ہو رہے ہوتے۔ اس کام میں تو سب جانتے ہیں جماعت اسلامی نے کو شش تو کی مگر عوام سے قدرے فاصلہ برقرار رہا۔صالحین کی صحبت سے رند دور ہی رہے۔ اگرچہ اس میدان میں حافظ محمد نعیم نے کافی کوشش کی کہ یہ فاصلے کم ہوں۔مگر ابھی بہت سا کام باقی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعی جوئے شیرلانے سے کم نہیں اس کے لئیے فرہاد جیسے صبر اور حوصلیکی ضرورت ہے۔ مگر جماعت والے ملک بھر میں کام شروع کر سکتے ہیں۔ اب حافظ نعیم امیر جماعت اسلامی کے حوصلہ بلند ہیں۔ وہ بجلی کے نرخ کم کرنے کے معرکے میں کامیاب نہ بھی ہوئے۔ اگراس ممبر سازی میں کامیاب ہوئے تو یہ ان کی بڑی کامیا بی ہو گی۔ اب وہ نئے عزم کے ساتھ میدان میں اْتر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ لوگ اس وقت مسائل کے گرداب میں پھنسے ہیں۔ مہنگائی سے نکونک آ چکے ہیں۔ بس ان کو ذرا متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کوئی پْرجوش ہدی خواں مل جائے تو قافلے کو نکلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت باقی جماعتوں کو باہمی سرپھٹول سے فرصت نہیں۔ ممبر سازی میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ وہ پہلے ہی اپنے کارکنوں کیلشکر کے بوجھ تلے د ی ہوئی ہیں۔ دعاہیکہ حافظ نعیم کی کروڑوں نہ سہی لاکھوں کی ہی ممبر شپ کی مہم کاامیاب رہے۔
٭٭٭٭٭