امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے 29 ستمبر کو پورے ملک کی شاہراہوں پر دھرنوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے راولپنڈی معاہدے پر عمل درا?مد نہیں کیا، جماعت اسلامی بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ پر ریفرنڈم کرائے گی۔ معاہدے کے 45 روز مکمل ہونے پر منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اکتوبر میں پہیہ جام ہڑتال اور اسلام ا?باد کی جانب لانگ مارچ کے ا?پشن بھی زیر غور ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 23 سے 27 اکتوبر تک عوامی ریفرنڈم ہوگا۔ امیر جماعت نے کہا کہ عوام کا پیمانہ صبر جواب دے چکا ہے، یہ لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور بجلی و گیس کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں پر عوام کو فوری ریلیف دے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے جو کچھ کہا وہ ایک حقیقت ہے۔ بجلی کی بھاری بل ابھی تک عوام کے لیے جان لیوا ہیں۔ دو ماہ کا عارضی ریلیف بھی ختم ہو رہا ہے۔ مضطرب عوام سیاسی تحریکوں کا حصہ بنیں گے تو حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا ہوں گی۔ عوام کو غربت، مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل میں مستقل ریلیف دے کر ہی مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے تک نون لیگ اور پی پی پی کے رہنما عوامی جلسے میں بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم تین سو یونٹ تک بجلی مفت دیں گے اور مہنگائی سے عوام کو نجات دلائیں گے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی انھیں اپنے وہ سارے وعدے بھول گئے اور اب آئی ایم ایف کا نام لے کر مسلسل عوام کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے سارے مطالبات کیا عوام پر بوجھ ڈالنے سے متعلق ہی ہیں؟ اشرافیہ اور بیوروکریسی کو سرکاری خزانے سے جو اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات دی جارہی ہیں ان کے بارے میں کیا آئی ایم ایف کچھ نہیں کہتا؟ کیا ان مراعات و سہولیات سے خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا؟ عوام کی باری آتی ہے تو سیاست دان سرکاری خزانے کے خالی ہونے کا رونا رونے لگتے ہیں۔ عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے، ایسا نہ ہو کہ تنگ آمد بجنگ آمد کی مصداق وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور پھر حکومت چاہ کر بھی ان کو قابو نہ کر پائے۔