چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکن بنچ نے پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق کیس کا فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کر لیا۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمشن کا اختیار ہے۔ آئین سازوں نے الیکشن کمشن تشکیل دیا۔ وہ چاہیں تو الیکشن کمشن کو ختم کردیں۔ ہم آئین کے پابند ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ ڈسٹرکٹ و سیشن ججوں کو گفت و شنید ، اشتراک اور دیکھ بھال کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔ ادارے گفت و شنید سے ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ اس ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بات چیت کرنا اہم اور ضروری ہے۔ جج کو ریڈ لائین کراس نہیں کرنی چاہیے تاکہ کسی جج پر متعصب ہونے کا لیبل نہ لگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی نجی، مقامی یا اجتماعی مسئلہ کے حل کے لئے ڈائیلاگ کے ذریعے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کر کے پائیدار اور تمام فریقین کے لئے قابلِ قبول حل نکالا جا سکتا ہے۔ آج قومی سیاست و معاشرت اور ادارہ جاتی سطح پر جس حد تک ذاتی انائیں حاوی ہوتی نظر آتی ہیں اور بلیم گیم کا کلچر جس شدت کے ساتھ سیاستدانوں کے علاوہ ریاستی انتظامی اداروں میں بھی سرایت کر رہا ہے اس سے ذاتی اور قومی معاملات میں افہام و تفہیم کا تصور مفقود اور ڈائیلاگ کے دروازے بند ہو رہے ہیں۔ اس کا منطقی انجام پورے سسٹم کے سڑاند چھوڑنے پر ہی منتج ہو گا جس سے لامحالہ جمہوریت دشمن عناصر کو اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع ملے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ ، انتظامیہ سمیت تمام ریاستی ، انتظامی اداروں کی قیادتیں آئین کے تحت قائم سسٹم کو بند گلی کی جانب دھکیلنے سے گریز کریں اور باہمی ڈائیلاگ کے راستے کھول کر اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کریں۔ ضد اور انا سے یقینا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔