سلگتے مسائل و تنازعات میں یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کا آغاز

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 79 واں اجلاس نیویارک میں شروع ہو گیا۔ افتتاحی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔ یہ اجلاس شریک ممالک کے لیے ریاستی علاقائی اور عالمی مسائل و معاملات اقوام عالم کے سامنے رکھنے کا بہترین فورم اور موقع ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ تک جاری رہنے والے اجلاس میں شریک ممالک کے سربراہان کی آپس میں ملاقاتیں ہوتی ہیں، ہر ملک کے سربراہ کو خطاب کا موقع ملتا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف  وفد کے ساتھ اجلاس میں شریک ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت خالد مقبول صدیقی اور معاون خصوصی طارق فاطمی وزیراعظم کے ہمراہ وفد میں  شامل ہیں۔
سائیڈ لائن ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر ہرینی امرسوریا کو سری لنکا کی نئی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ان کے ساتھ تجارت اور سیاحت  سے متعلق  امور پر گفتگو کی۔ مالدیب کے صدر ڈاکٹر معیزو کیساتھ ملاقات میں  دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی ترقی اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لئے عوام کے درمیان  روابط اور باہمی تعاون کی کوششوں میں اضافہ کی ضرورت اورخطے کے امن، خوشحالی اور استحکام کے لئے مل کر کام کرنے کے لئے جنوبی ایشیائی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری پر اتفاق کیاگیا۔وزیراعظم نے مالدیب کے ساتھ تجارت، سیاحت، تعلیم، سرمایہ کاری اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ شہباز شریف نے نیویارک میں دیرپا ترقی کے اہداف پر پینل مباحثے میں شرکت کی۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر پوری توجہ سے کام کیا جا رہا ہے۔انہوں نے باور کرایا کہ ڈھائی کروڑ بچے آج بھی سکولوں سے باہر ہیں جو سب سے بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ  ہم نے نائن الیون کے بعد دہشتگردی کا سامنا کیا۔ پاکستان کو معاشی طور پر 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ دہشت گردی کے باعث 80 ہزار جانیں گئیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2022ء میں پاکستان کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور دہشت گردی کے باعث ہمیں بھاری مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا، پاکستان جیسے ممالک کو ایسی صورتحال میں ادھار اور قرض لینا پڑتا ہے جو ان کیلئے موت کا پھندا ہے۔
 چند روز قبل اقوامِ متحدہ کے سمٹ آف دی فیوچر سے پہلے ورچوئل گلوبل اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا تھاکہ بڑھتی ہوئی غربت اور قرضے اجتماعیت کے تصور کو دھندلا رہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے واجب الادا قرضے معاف کئے جائیں۔ 
اج دنیا کو گلوبل وارمنگ کا سامنا ہے جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل  کے بقول اب گلوبل بوائئلنگ میں بدل گئی ہے۔عالمی سطح پر اس کے لائحہ عمل کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے
 دہشت گردی کا چیلنج بدستور موجود ہے۔ اسرائیلی جارحیت پہلے کی طرح جاری ہے۔ بھارت کے مظالم رکنے میں نہیں آ رہے۔ اسلاموفوبیا کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں۔یہ عوامل قوموں کے مابین نفرتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ ضرورت  عالمی ہم آہنگی کی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی تازہ صورتحال کے مطابق اسرائیل کی جانب سے لبنان کے شہروں پر جاری خوفناک بمباری سے 500 سے زائد افراد کی شہادت کے بعد ہزاروں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی تلاش میں نکل پڑے ہیں ۔ الجزیرہ کے مطابق اسرائیل لبنانی دارالحکومت بیروت سمیت مختلف شہروں پر گزشتہ دو دنوں میں سینکڑوں فضائی حملے کرچکا ہے۔پہلے روز آدھے گھنٹے میں 80 خوفناک حملے کئے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی سے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ فلسطینیوں کو اجتماعی سزا بلاجواز ہے۔ غزہ کی صورتحال خوفناک ہے۔ دنیا میں سزا سے استثنیٰ کا رجحان ناقابل برداشت اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ عالمی برادری دو ریاستی حل کو کامیاب بنائے۔
لبنان کو ایک اور غزہ نہیں بننا چاہئے۔ عدم مساوات کے رجحانات دنیا کے لئے بڑھتا خطرہ ہیں۔ دوسری طرف امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی فوری ضرورت ہے، مشرق وسطیٰ میں جنگ کا پھیلاؤ کسی کے حق میں نہیں۔  کسی بھی ملک کو حق ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ اس پر دوبارہ حملہ نہ ہو۔ دنیا 7 اکتوبر کے ہولناک واقعات کو کبھی نظر انداز نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ دو ریاستوں کا قیام ہی مسئلہ فلسطین کا حل ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی ریاست میں رہنے کا حق ملنا چاہئے۔
امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔عالمی سطح پر بہت سے فیصلے اس کی ہاں اور نہ میں ہوتے ہیں۔جو بائیڈن  اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرح مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر قائل ہیں مگر اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔وہ فلسطینیوں سے  ہمدردی بھی جتاتے ہیں۔اس کی حیثیت مگرمچھ کے انسوؤں سے زیادہ نہیں ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ادارے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس فلسطینیوں پر بربریت اور سفاکیت کی  بات کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ اسرائیل  کر رہا ہے اس سے وہ اقوام عالم کو آگاہ  کرتے رہتے ہیں۔ان کا کام دنیا کو اسرائیلی ظلم سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ اس کے ظلم کا ہاتھ روکنا ہے۔اقوام متحدہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے۔  اسی لئے اقوام متحدہ کے بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی کا تصور جاگزین ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ عالمی امن کے لیے  اپنا مؤثر کردار ادا کرکے اورانسانی المیات کا باعث بننے والے تنازعات طے کراکے ہی بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی کا تاثر ختم کر سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن