بڑھتی ہوئی آبادی پر عبدالعلیم خان کا اظہار تشویش اور بلوچستان میں ہونے والی سازشیں بے نقاب!!!!!

پاکستان کو ویسے تو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن پر مختلف حوالوں سے مختلف مقامات پر بات ہوتی رہتی ہے۔ معاشی مسائل ہوں یا امن و امان ، سیاسی عدم استحکام ہو یا آئینی معاملات، مہنگائی ہو یا بیروزگاری ہر حوالے سے بات ہوتی رہتی ہے۔ مسائل حل ہوتے ہیں یا نہیں، فیصلے ہوتے ہیں یا نہیں، ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے جاتے ہیں یا نہیں، ہم درست سمت میں آگے بڑھتے ہیں نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ ان تمام مسائل پر بات کرتے ہوئے ہر سطح پر آبادی میں تشویشناک حد تک مسلسل اضافے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے فارمولے کو دیکھا جائے تو پھر احساس ہوتا ہے کہ حکومتی سطح پر تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی والے معاملے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کیا بڑھتی ہوئی آبادی سے تناسب سے ہم وسائل میں اضافے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ یقینا یہ نہایت اہم اور توجہ طلب پہلو ہے۔ نہ تو ہم آبادی کو قابو میں رکھنے کے لیے کچھ کر رہے ہیں اور نہ ہی ہم وسائل میں اضافے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس اہم ترین مسئلے پر وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ، مواصلات اور نجکاری عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو شہری آبادی میں اضافے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو اعلی ترین سطح پر شدت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں حکومت کو فوری طور پر پالیسی بنانی چاہیے، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کیسے کنٹرول کرنا ہے اور موجودہ آبادی کے لیے بہتر زندگی کے وسائل میں کیسے اضافہ کرنا ہے۔ عبدالعلیم خان کا یہ بیان قابل تعریف ہے۔ کم از کم انہوں نے اس اہم معاملے پر ساتھی وزراء￿  اور حکومت کو ایک سوچ دینے کی کوشش تو ضرور کی ہے۔ 
چین میں منعقدہ گلوبل ٹرانسپورٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے عبدالعلیم خان نے مواصلات میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اورگرین ٹیکنالوجی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو شہری آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تنزلی کا بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ذرائع آمد و رفت میں بہتری کے لیے شہریوں کے تحفظ کو مدنظررکھنا ہوگا۔ سی پیک اور چائینہ بیلٹ روڈ منصوبوں سے دونوں ممالک مستفید ہوں گے۔ سی پیک تجارتی راہداریاں گرین انرجی اور کلین ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔ ہائی ویز اور بندرگاہوں کو مستقبل کی ضروریات کے مطابق مربوط بنانا ترجیحات میں شامل ہے۔ اسی سے معاشی بہتری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مواصلاتی نظام میں بہتری سے معیشت ہی نہیں ثقافت اور معاشرت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ مواصلات کے شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور گرین ٹیکنالوجی کے حامی ہیں۔ عبدالعلیم خان نے چین کے وزیر ٹرانسپورٹ لی ڑیاپینگ سے ملاقات کی۔ ملاقات کے اعلامیے کے مطابق پاکستان ، چین وزراء نے چار میگا پراجیکٹس پر مل کر کام کرنے پراتفاق کیا جن میں شاہراہ قراقرم، ایم ایل ون، ایم سکس، ایم نائن اور کاغان ناران ، بابوسر ٹاپ ٹنل شامل ہیں۔ پاک چین وزراء کے درمیان ان منصوبوں پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور فنانشل ماڈل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ عبدالعلیم خان کے مطابق چین اور پاکستان مل کر ایم ایل ون اور ایم 6 اور ایم 9 کے منصوبوں پر کام کریں گے۔ پاکستان میں قراقرم ہائی وے اور کاغان ناران سے بابو سر ٹاپ ٹنل تعمیر کی جائے گی۔ سی پیک کے بینر تلے سارے منصوبے قابل عمل اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دیں گے۔چین کے وزیر ٹرانسپورٹ سے سکھر ، حیدرآباد اور کراچی موٹروے کی تعمیر پر بھی بات ہوئی ، کاغان ، ناران ، جھال کھنڈ ، بابو سرٹاپ اور قراقرم ہائی وے ٹنل تک رابطہ شاہراہ بنے گی جبکہ شاہراہ قراقرم کے فیز ٹو کیلئے بھی چین کا تعاون حاصل ہو گا۔ چاروں بڑے منصوبوں کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر بھی غور ہو گا۔ 
وفاقی وزیر عبدالعلیم خان سے ان کی وزارتوں میں بہت امیدیں ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ کامیاب منتظم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ بالخصوص کاروباری معاملات میں بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ جن وزارتوں کو چلا رہے ہیں یہ شعبے پاکستان کی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دہائیوں سے میدان سیاست میں رہتے ہوئے انہوں نے مختلف ادوار دیکھے ہیں اور اس مشکل وقت میں وفاقی سطح پر خدمات انجام دیتے ہوئے اچھے نتائج دے رہے ہیں۔ پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات بعض عالمی اداروں اور طاقتوں کو کھٹکتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاملے میں مذاکرات کے دوران ہونے والی سختی کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں۔ اس واضح اظہار کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ پاکستان میں معاشی و سیاسی استحکام آئی ایم ایف سے آزادی میں ہے۔ پاکستان کی معاشی خود مختاری میں سی پیک اہم کردار ادا کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین مخالف عالمی طاقتیں اور ادارے اس گیم چینجر منصوبے کے بے حد خلاف ہیں۔ اس تناظر میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کے خراب حالات کو پرکھا جا سکتا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو سیاسی قیادت کو متحد ہو کر عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار اور تقسیم ملک دشمن طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔ ہمیں اس ایجنڈا کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر جتنی تیزی سے کام ہو گا اتنی تیزی سے معیشت مضبوط ہو گی۔ کالعدم تنظیموں پاکستان میں بدامنی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی سلسلہ میں تربت سے گرفتار خودکش حملے کے لیے تیار کی گئی میڈیکل کی طالبہ عدیلہ بلوچ نے حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں۔ عدیلہ بلوچ کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے ورغلایا کہ میں خودکش حملے کروں، دہشت گردی کیلئے میری برین واشنگ کی گئی۔ میں نے ابتدائی تعلیم تربت سے حاصل کی، نرسنگ کا کورس کوئٹہ سے کیا، مجھے بہکایا گیا تھا، میرے علاوہ پہاڑوں پر ایک اور لڑکی کا بھی برین واش کیا گیا تھا، میں غلط راستے پر چل رہی تھی لیکن حکومت بلوچستان کی وجہ سے بچ گئی۔ سوچا نہیں تھا خودکش دھماکا کرنے سے معصوم لوگوں کی جان جائے گی، دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو ورغلایاجا رہا ہے،دہشت گرد اپنے مقاصدکیلئے لوگوں کواستعمال کرتے ہیں، نوجوانوں کو نصیحت کرتی ہوں دہشت گردوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ عدیلہ بلوچ کے والد کا کہنا تھا کہ پتا چلا کہ میری بیٹی کو ورغلایا گیا، جانتا ہوں جنہیں پہاڑوں پر لیجایا جاتا ہے ان کی واپسی نہیں ہوتی، بیٹی کے لاپتا ہونے پر حکومت بلوچستان سے رابطہ کیا، بروقت کارروائی کر کے میری بیٹی کو واپس لایا گیا۔ لاپتا افراد کے والدین سرکار کے پاس جائیں اور دیگر والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ ان کے بچے کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں۔
عدیلہ بلوچ کا واقعہ اور اس کے والد کی طرف سے بروقت حکومت کو مطلع کرنے سے صرف ایک جان نہیں بچی بلکہ ایک نسل کو محفوظ بنایا گیا ہے۔ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ دشمن کی چالوں کو سمجھنا ہو گا۔ اس معاملے میں اندرونی اتحاد بہت اہم ہے۔ کاش ہم ملکی مفاد میں ملک دشمنوں کے خلاف متحد ہو کر کام کریں۔
آخر میں وسیم بریلوی کا کام
بھلا غموں سے کہاں ہار جانے والے تھے
ہم آنسوؤں کی طرح مسکرانے والے تھے
ہمیں نے کر دیا اعلان گمرہی  ورنہ
ہمارے پیچھے بہت لوگ آنے والے تھے
انہیں تو خاک میں ملنا ہی تھا کہ میرے تھے
یہ اشک کون سے اونچے گھرانے والے تھے
انہیں قریب نہ ہونے دیا کبھی میں نے
جو دوستی میں حدیں بھول جانے والے تھے
میں جن کو جان کے پہچان بھی نہیں سکتا
کچھ ایسے لوگ مرا گھر جلانے والے تھے
ہمارا المیہ یہ تھا کہ ہم سفر بھی ہمیں
وہی ملے جو بہت یاد آنے والے تھے
وسیم کیسی تعلق کی راہ تھی جس میں
وہی ملے جو بہت دل دکھانے والے تھے

ای پیپر دی نیشن