حکمران اپوزیشن اور عدلیہ کے فیصلے

Sep 26, 2024

احسان ناز

احسان ناز
 سپریم کورٹ اف پاکستان نے جو مخصوص نشستوں کے بارے میں تفصیلی فیصلہ دیا ہے اس فیصلے کے بعد ان سیٹوں کا مسئلہ حل ہو جانا چاہیے تھا لیکن حکمران جو کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ان مخصوص خواتین کی  اور اقلیتوں کی نشستوں پر قابض ہو چکے تھے اور ان کا ذہن یہی تھا کہ جو مال غنیمت ہمیں مل چکا ہے یہ ہم سے واپس نہیں لیا جائے گا سپریم کورٹ کے فیصلوں  کے بارے میں پہلے میاں محمد نواز شریف صاحب اپنے کئی بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ہر حکم ماننا پڑے گا لیکن اس وقت ان کے وفاقی وزیر قانون و انصاف مسڑ تارڑ صاحب یہ کہتے ہیں کہ سب سے بالا پارلیمان ہے اور پارلیمان سپریم کورٹ کے حکم کو مانے یا نہ مانے یہ اس کی صوابدید ہے تو میں یہ اس وقت کہنے میں اپ کو جو ہے نا وہ ہوں کہ مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف جو کہ پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں ان کو عدالتوں کی توہین کرنے کی بجائے عزت اور احترام کرنا چاہیے کیونکہ عدالتوں نے ہی ان کو علاج کرانے کے لیے ملک سے باہر بھیجا عدالتوں نے ہی ان کو اقتدار واپس دلایا اور اسی عدلیہ نے چھٹیوں کے دنوں میں اور خاص کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے موقع پر رات کو عدالتیں لگائیں اور میاں محمد نواز شریف اور ان کی ا تحادیوں کو پاکستان کا حکمران بنایا لیکن نہ جانے وہ کون سا ایسا کیڑا ہے جو بار بار پاکستان کے سیاست دانوں کو عدلیہ مقننہ اور اسٹیبلشمنٹ پر چڑھ دوڑنے کا سبق دیتا ہے اور دیکھنے میں ایا ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی حکمران ہیں جو اس وقت حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری اپنے اوپر رکھنے کے لیے سر دھڑ کا زور لگایا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ملک کی سلامتی سامنے رکھتے ہوئے اور  ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ہمیشہ ان لوگوں کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی ہے جن کو وہ محب وطن اور پاکستانکے ساتھی سمجھتے ہیں میرے دیکھنے میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس بھی پارٹی کو اقتدار میں لاتی ہے وہ ڈیڑھ دو سال کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر جب بات کرتے ہیں تو پھر ان کی حکومت کا زوال اور عوام کی  بدحالی کا دور  شروع ہوتا ہے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محمد خان جونیجو  میاں نواز شریف  سید یوسف رضا گیلانی چوہدری شجاعت حسین  میاں شہباز شریف اور اب اس میں عمران خان کو بھی شامل کر لیں یہ تمام لیڈر راولپنڈی کے گیٹ نمبر چھ سات اٹھ کی پیداوار ہیں اور ہمیشہ انہوں نے جی ایچ کیو جا کر وہاں پر بیٹھے نمائندگان کو رام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی ہیں اور ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے روابط رکھنے کے لیے رابطہ  کے لیے جدوجہد کی ہے اس وقت جو عدلیہ ہے اور ان کے فیصلے جو ہیں وہ بول رہے ہیں جن کی بنیاد پر پہلے اسٹیبلشمنٹ  شریف اور زرداریوں کی انکھ کا تارا تھی وہ انکھ کا شھتیر بن چکی ہے اور پچھلے چند فیصلوں کو جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت  سپریم کورٹ کے فیصلے ماننے سے انکار کیا  الیکشن کمیشن نے میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم پاکستان اصف علی صدر پاکستان وزیر داخلہ محسن نقوی اور دیگر حکمران جو کہ اٹھ فروری کے الیکشن میں شکست فاش سے دو چار ھوے لیکن نہ جانے کن نادیدہ قوتوں نے ان کو پاکستان کا حکمران  بنایا لیکن ان حکمرانوں نے ان  قوتوں کو پاکستان کے 25 کروڑ عوام میں کہیں کا نہ چھوڑا نہ مہنگائی کم کی نہ لا اینڈ ارڈر بہتر ہوا اور نہ ہی  امورخارجہ میں کوئی تبدیلی ائی اور پاکستان کے مالی ذخائر جو کہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں اربوں ڈالر تھیوہ کم ہوتے ہوتے چند پر رہ گئے پھر افواج پاکستان کے سالار نے اپنے اسلامی ملکوں اور چین سے رابطہ کر کے ڈالر پاکستان کو دلوانے کے وعدے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ائی ایم ایف نے پاکستان کو سات ارب ڈالر کا قرضہ دینے کا بل پاس کر دیا اس طرح پاکستان کے خزانے میں اربوں ڈالر ہو گئے لیکن ان ڈالروں میں پاکستان کی اپنی ذاتی کمائی کی ایک دمڑی بھی نہیں ہے جتنے بھی ذخائر اج کل حکومت بتا رہی ہے یہ سب قرضے سے لیے ہوئے ذخائر ہیں اور صرف ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کی عوام کو مہنگائی کے عذاب میں جہنم رسید کر دیا گیا ہے اس موقع پر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں جس ملک میں انصاف نہیں ہوگا وہ حکومت نہیں چل سکتی اس سلسلے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول بھی ہے کہ جس ملک میں ظلم کا نظام ہو وہ تو چل سکتی ہے لیکن جس جگہ انصاف نہ ملے وہ حکومت نہیں چل سکتی وہ حکمران اس وجہ سے دنیا  اور اخرت میں بھی ذلیل و خوار ہوتے ہیں اج پاکستان کے 25 کروڑ عوام اور اقوام عالم کے کھربوں اشخاص یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت جس طرح مہنگائی کر کے عوام پر ظلم کر رہی ہے وہ اپنی ایک تاریخ رقم کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ جو عدلیہ کے سامنے حکمران ان کے احکام نہ ماننے کے بارے میں ڈٹ کر کھڑے ہیں اس طرح ان حکمرانوں کا کوئی ثانی نہیں ملتا جس وقت عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا گیا اس وقت اصف علی زرداری میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمن چوہدری شجاعت حسین اور ایم کیو ایم  اور باقی تمام سیاسی پارٹی اس چیز پر اکٹھی تھی کہ ملک میں مہنگائی بہت ہے لیکن پھر اپ نے دیکھا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے 16 ماہ مہنگائی کے معاملے پر مڑ کر نہیں دیکھا اور سو لوگوں سے زیادہ کابینہ وزراء￿  کی ظفر موج بنا کر اپنا اپنا حصہ وصول کرتے رہے اور بعد میں دوبارہ جب حکومت بنی تو پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کے تمام ائینی عہدے صدر چیئرمین سینٹ اور گورنرشپ سنبھال کر یہ اعلان کیا کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں ہیں جبکہ مسلم لیگ نون نے اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو چوتھی دفعہ وزیراعظم بنانے کی بجائے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم پاکستان بنا دیا اور انہوں نے پھر پی ڈی ایم ٹو کی حکومت میں 100 سے زیادہ وزیروں مشیروں کی ظفر موج یہ کہتے ہوئے کہ ہم ملکی خزانہ پر بوجھ نہیں بننا چاہتے اتنا بوجھ ڈال دیا کہ حکومت مالی حالات میں الجھ کر رہ گئی میاں محمد شہباز شریف نے مرکز میں اور محترمہ مریم نواز شریف نے پنجاب میں تحریک انصاف کا بستہ گول کرنے کے لیے وہ تمام حربے استعمال کیے جس سے اس سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے تحریک انصاف کا پتہ صاف کر دیا گیا اور وہاں پر تمام ارکان اسمبلی کو سنی اتحاد کونسل کا نام دے دیا اور یہ چکر میں چکر حکومت کو چڑھتے رہے اور اخر کار  گزشتہ روز جو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک سو اسی نشستیں دینے کا فیصلہ کیا تو اس پر اصف علی زرداری میاں محمد نواز شریف میاں شہباز شریف بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کو ایک انکھ نہ بھایا اور ان کے وفاقی وزیر مسٹر تارڑ نے عدلیہ کے خلاف بھرپور پریس کانفرس کی اور کہا کہ ہمیں عدالت عالیہ کا خواتین کی مخصوص نشستیں پھر تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ قبول نہیں ہے تو یہ جو رام کہانی میاں محمد نواز شریف سے شروع کی تھی کہ عدلیہ کا ہر فیصلہ مانیں گے تو حکومت ہوگی لیکن اب تک جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں الیکشن کمیشن سر جوڑ کر بیٹا ھے کہ پی ٹی ائی کو خواتین اور اقلیتوں کے نششتیں نہیں دیں گے اس پر حکمران ٹولہ قائم و دائم ہے اور پھر دوبارہ بندر بانڈ کے لیے ان سب نے حصہ بقدر جسہ ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے اپنی اپنی جھولیاں پھیلا رکھی ہیں دیکھیے عدلیہ اس میں اپنا کیا کردار ادا کرتی ہے اور الیکشن کمیشن جو کہ حکمران پارٹی کا وکیل بنا ہوا ہے وہ اب کس طرح شریف اور زرداری کی وکالت کرتا ہے
 

مزیدخبریں