امن کے محافظ: پاکستان کی مسلح افواج اور عالمی تنازعات میں ان کی قربانیاں

تحریر: محمد محسن اقبال
پاکستان نے عالمی امن کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں میں شرکت قابل ذکر ہے۔ دنیا بھر میں امن و استحکام کے لیے اس کی وابستگی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک خاصہ بن چکی ہے اور یہ اس کے اخلاقی اور مذہبی اقدار کا اظہار ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کی لگن، پیشہ ورانہ مہارت اور قربانی نے انہیں عالمی سطح پر عزت اور پہچان دلائی ہے۔
پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے ایک مضبوط مقام برقرار رکھا ہے، اور اس کی مسلح افواج مستقل طور پر اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے امن مشنوں میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ پاکستان نے 1960 میں کانگو بحران کے دوران اقوامِ متحدہ کے امن مشن میں پہلی بار اپنی فوجیں بھیجیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، پاکستان کے فوجی اہلکار دنیا کے سب سے زیادہ تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں، جیسے بلقان، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا۔ پاکستان آج بھی اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں میں اپنی فوجیں بھیجنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج نے بہت سی امن مشنوں میں حصہ لیا ہے۔ ان میں کانگو، صومالیہ، سیرالیون، ہیٹی، بوسنیا، کوسوو، دارفور، برونڈی، کمبوڈیا، مشرقی تیمور اور کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔ ان مشنوں میں افواج کا کردار سیکیورٹی فراہم کرنے، قانون نافذ کرنے اور انسانی امداد میں مدد دینے سے متعلق ہوتا ہے۔ ان مشنوں کا مقصد ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے جہاں امن دوبارہ قائم ہو اور شہری اپنے تباہ شدہ زندگیوں کی بحالی شروع کر سکیں۔ پاکستان نے 28 ممالک میں 46 مشنوں کے لیے 200,000 سے زائد فوجی اہلکار فراہم کیے ہیں۔
پاکستان کی خدمات کا ایک نمایاں پہلو اس کے فوجیوں کی دی جانے والی قربانیاں ہیں۔ امن مشن نہایت خطرناک اور مشکل کام ہیں، جہاں اہلکاروں کو انتہائی نامساعد حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے نمایاں قربانیاں دی ہیں۔ اب تک 170 سے زیادہ پاکستانی فوجی اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں کے دوران اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں، جس نے پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے امن دستوں میں اہلکار اور شہیدوں کی تعداد کے لحاظ سے سرِفہرست رکھا ہے۔ یہ فوجی خدمت، قربانی اور عالمی امن کے لیے لگن کے اعلیٰ ترین اصولوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
عالمی امن کے قیام میں پاکستان کا کردار صرف اس کے مرد فوجیوں تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں خواتین نے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں، خاص طور پر طبی شعبے میں جہاں وہ امن دستوں اور تنازع زدہ علاقوں کے شہریوں کو ضروری طبی امداد فراہم کرتی ہیں۔ خواتین کی امن مشنوں میں شرکت نہ صرف مشنوں کی عملی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے بلکہ یہ اقوامِ متحدہ کے امن کوششوں میں صنفی مساوات کے فروغ کے مقصد کے مطابق بھی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امن مشنوں کا مقصد تنازع زدہ علاقوں میں امن اور استحکام بحال کرنا ہے، جس کے لیے رکن ممالک کی جانب سے فوجی، پولیس اور سویلین اہلکاروں کو بھیجا جاتا ہے۔ ان مشنوں میں شرکت رضاکارانہ ہوتی ہے، لیکن اسے عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایک مشترکہ ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں تمام ممالک کے لیے امن مشنوں میں لازمی شرکت کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری کے رکن ہونے کے ناطے، ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت میں تعاون کریں، چاہے وہ مالی معاونت ہو یا فوج بھیجنا۔ پاکستان جیسے کئی ممالک کے لیے، ان مشنوں میں شرکت بین الاقوامی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے عزم کی ایک علامت ہے۔
پاکستان کا امن کے قیام میں عزم اس کی اسلامی اقدار میں بھی گہری جڑیں رکھتا ہے، جو لوگوں کے درمیان امن، انصاف اور ہم آہنگی کو فروغ دینے پر زور دیتی ہیں۔ اسلام میں امن کو ایک بنیادی اصول کے طور پر اپنایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو‘‘ (سور? الانفال، 8:61)۔ یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ امن کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے اور تنازعات کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ قرآن پاک میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ’’اور جس نے ایک جان کو بچایا، گویا اس نے تمام انسانیت کو بچا لیا‘‘ (سور? المائدہ، 5:32)۔ یہ طاقتور آیت پاکستان کی مسلح افواج کی بے لوث خدمات کے عین مطابق ہے، جہاں وہ دنیا بھر میں امن کی بحالی اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کے زخموں کو مندمل کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح، حضرت محمد (?) نے اپنی زندگی میں امن اور مفاہمت کی اہمیت پر زور دیا۔ آپ (?) نے تنازعات کے حل کے لیے ہمیشہ پرامن ذرائع کو اپنایا اور اپنے پیروکاروں کو ہر ممکنہ صورت میں تنازع سے بچنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی تلقین کی۔ایک حدیث میں رسول اکرم (?) نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ وہ ہے لوگوں کے درمیان صلح کروانا، کیونکہ باہمی تعلقات کی خرابی نیکیوں کو مٹا دیتی ہے‘‘۔ یہ فرمان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امن قائم کرنا اور تنازعات کو حل کرنا اسلام میں عبادت کے اعلیٰ ترین اعمال میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستان کا امن مشنوں میں حصہ لینا ان اقدار کا عملی اطلاق ہے۔ عالمی امن و سلامتی میں اپنا حصہ ڈال کر، پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کر رہی ہیں بلکہ اپنے اعمال کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کر رہی ہیں، جو امن اور انصاف کی تلقین کرتے ہیں۔ اس لیے امن مشنوں میں ان کا کردار ایک قومی فرض اور مذہبی ذمہ داری دونوں ہے۔
آخر میں، پاکستان کا اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں کردار عالمی امن و استحکام کے لیے اس کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ان مشنوں میں پاکستان کی مسلح افواج کی بہادری اور قربانی دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم علاقوں میں امن کو فروغ دینے کے لیے ملک کے عزم کی علامت ہیں۔ 170 سے زیادہ شہیدوں اور 46 مشنوں میں شرکت کے ورثے کے ساتھ، پاکستان عالمی امن کے لیے کوشاں ممالک میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کوششوں کے ذریعے، پاکستان نہ صرف اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے بلکہ اسلامی اقدار جیسے امن، مفاہمت اور انصاف کی بھی پاسداری کرتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن