امیر محمد خان
اس ملک کے عوا م کی بدقسمتی ہے کہ انکے رہنماء اقتدار کیلئے ان کے ووٹوں پر بھروسہ اور انکی رائے پر بھروسہ کرنے کے بجائے یا تو اقتدارحاصل کرنے کی غیرملکی سفارش یا سازش ڈھونڈتے ہیںیا پھر اندورن ملک اپنی آئینی ذمہ داریوںکے خلاف کام کرنے والے عسکری افراد،عدلیہ میںخلاف قانون کام کرنے والے نام نہاد قانون کے رکھوالوںکا سہارہ ڈھونڈتے ہیں جو اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے اپنی خواہشات پر فیصلے کرتے ہیں یہ سب اس ملک میں گزشتہ 77سالوں میںہوا ہے اسلئے ہم جمہوریت کے صرف نام ہی سے واقف ہیں کبھی اسکے ثمر کا مزہ نہیںلے سکے ، بھرپور انداز میں یہ کام تحریک انصاف کا سیاست میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوا پی ٹی آئی انہی سہانے خوابوں کی یاد میں آج تک ہے مگر اب عسکری قیادت نے کم از کم یہ طے کررکھا ہے کہ جو ملک میںدہشت گردی کی سیاست کرے گا وہ عوام میں پذیرائی حاصل نہ کرسکے گا۔ پی ٹی آئی کا یہ کرشمہ ہے کہ ایک ہفتہ شریف بچہ بنتی ہے مگر دوسرے روز ہی کپتان اپنے بیان سے فضاء کو مکدر کرتا ہے اس صبح و شام بیانات کی تبدیلی سے پی ٹی آئی کی پیشہ ور وکلاء قیادت بھی حیران و پریشان ہے۔ خان کا وہ شیر بھی اب جلسے میںپہنچنے کی صرف کوشش کرتا ہے پہنچتا نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ گنڈہ پور لاہور کے جلسے میں پہنچ نہیں سکے وہ احمقوںکی جنت میںرہتا ہے یہ گزشتہ مویشی منڈی کے جلسے جس میں کپتان کے شیر نے بہت اول فول بکی تھی اس جلسے کے بعد کپتان کا شیر جو چند گھنٹوں ’’غائب ‘‘ہوگیا تھا اسکا نتیجہ تھا کہ کپتان کا شیر لاہور کی مویشی منڈی کے جلسے میں نہ پہنچ سکا۔ اب عوام بھی تنگ آچکے ہیںاسی لئے یادگارمینا ر پاکستان کے جلسوں سے بات مویشی منڈیوںکے جلسیوں تک آپہنچی ہے جن لوگو ںنے پاکستان کی سڑکوںپر 9 مئی کو یادگار توڑ پھوڑ مچائی تھے وہ لاہور کی مویشی منڈی سے6بجے ہی روآنہ ہونے شروع ہوگئے تھے پہلے انقلابی لیڈران وہاں سے عوام کو چھوڑ کر اپنی مہنگی گاڑیوں اور گارڈز کے ساتھ روآنہ ہوئے انکے پیچھے انکے انقلابی قافلہ چلا گیا ،یہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ اب پی ٹی آئی معاہدوں پر عمل کرتی ہے سیاسی جماعت کو ایسا ہی ہونا چاہئے اور حکومت کو انکی اس طابعہ داری پر انہیں جلسہ کی جگہ دینے پرآنی تانی نہیںکرنا چاہئے۔ اگر حکومت سختیاں کریگی تو پی ٹی آئی کی حمائت یافت قانون دان چاہے اعلی ہوں یا صرف وکیل وہ وا یلا مچاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اپنی تمام تر امیدیں امریکی صدارتی انتخابات پر لگا رہی ہے، ان کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو عمران خان کو مزید مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے خیال میں ٹرمپ نہ صرف پاکستانی حکومت پر خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے بلکہ ان کی اقتدار میں واپسی میں بھی مدد کریں گے۔عمران خان کے بابو قسم کے معاون خصوصی زلفی بخاری پر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ قریبی تعلقات کا الزام اپنی جگہ موجود ہے جو ایک حقیقت ہے۔ پاکستان میں حکومت کی پروپگنڈہ مشینری کمزور ہے نہ جانے وہ کس خوف میں مبتلا نظر آتی ہے ورنہ اب عوام میں پی ٹی آئی خود مواقع فراہم کررہی ہے کہ عوام اس سے متنفر ہوجائیںعمران خان کی حمایت میں مغربی حکومتوں کی کوششوں کے علاوہ اب اسرائیلی میڈیا بھی ان کی پشت پناہی کرنیوالوں میں شامل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل، ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ خان نے اپنی سیاسی مہمات میں ملک کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اشارہ دیا۔ اب، دی یروشلم پوسٹ نے ایک اور مضمون شائع کیا، جس میں عمران خان کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا
ایک مضبوط وحمائیتی قرار دیا ہے ، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے عمران خان کی رہائی اسرائیل کا اول ترین ایجنڈہ بن چکا ہے یروشلم پوسٹ کے آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی قیادت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے میں اہم رکاوٹ ہیں اور تجویز دی کہ کسی بھی پیشرفت کے لیے ان قوتوں کو ہٹانا ہوگا۔ اس نے مزید زور دیا کہ خان کا اثر و رسوخ اسرائیل کے حوالے سے رائے عامہ اور فوجی پالیسی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کا اسرائیل سے پیار آجکا نہیں آج سے 20 سال قبل جب حکیم سعید شہید نے اپنی کتاب ’’جاپان کی کہانی ‘‘کے صفحہ13،14،15میں عمران کے متعلق اور پاکستان میں ایک یہودی دوست لیڈر کی پیشن گوئی کی تھی ، ڈاکٹر اسرار احمد نے 1995ء میںجو انکشافات یا پیش گوئیاںکی تھیں وہ آج بھی ریکارڈ پر ہیں۔2016ء میں، عمران خان نے لندن کے میئر کے انتخاب میں عوامی طور پر اپنے سابق بہنوئی، زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت کی۔ زیک لیبر پارٹی کے پاکستانی نڑاد مسلم رہنما صادق خان کے خلاف انتخاب لڑ رہا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے متعدد ٹویٹس کے ذریعے لندن والوں پر زور دیا کہ وہ صادق خان کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت کریں اور انہیں ووٹ دیں۔عمران خان نے قومی سیاست اور ریاست دونوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی نہ صرف یہ بلکہ غیر جمہوری اور غیر فطری رد عمل اور ریاست سے ٹکرائو ہی ٹکرائو کے نتیجہ میں حالیہ انتخابات میں اچھا خاصا ووٹ حاصل کرنے کے بعد جو بھی قومی سیاسی دھارے میں مائنس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ایک سال سے زائد پابند سلاسل ہیں حیرت اس امر کی ہے کہ وہ اج بھی مرغ کی ایک ٹانگ کے مصداق اپنے نامعقول نکات پر اڑے ہوئے ہیں ان کی غیر موجودگی میں ہونے والے جلسے خواہ وہ کے پی کے اسلام اباد لاہور میں ہوں وہ جلسوں کی بجائے جلسیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں مینار پاکستان سے شروع ہونے والا لاکھوں شرکا پر مشتمل جلسے اب صرف مویشی منڈیوں کے گرائنڈتک جا پہنچے ہیں ایسے ناکام جلسوں کے بہت سے اسباب ہیں جن کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک انصاف کے اپنے اپ پر تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ ذمہ دار عمران خان خود ہیں کیونکہ زلفی بخاری کی بیرون ملک دشمن کارویاںیک ایسی گلے کی ہڈی بن چکی ہیں ، اسرایئل اور یورپ و امریکہ کی جانب سے خان کی حمائت میں بیانات ا نہیں کی کوششیں جسکے مقابلے میں ہمارے سفارت خانے ، وزیارت اطلاعات صرف تماشہ دیکھ رہی ہے ملک دشمن اور عسکری قیادت کے خلاف واہیات سوش میڈیا پروپگنڈہ ، اور اسکی وجہ سے حکومت کے اقدامات نے ستر فیصد سے زیادہ پاور شو کے لئے نکلنے والے تحریک انصاف کے سپوٹرز اور ووٹرز کو خوف کی بدولت گھروں اور سوشل میڈیا تک محدود کر کے رکھ دیا ہے رہی کسر پارٹی کے اندر مختلف دھڑے بندی اور غیر سیاسی قیادت نے پوری کردی جو نہ صرف دونوں اطراف میں کھیل رہے ہیں بلکہ انتہا کے بزدل بھی ہیں اس لیے کہتے ہیں اصل یا حقیقی لیڈر کے بغیر جماعت یتیم ہی گردانی جاتی ہے لحاظہ پی ٹی آئی کے موجودہ جلسے سواے خفت مٹانے اور خانہ پوری کے کچھ نہیں جن میں نہ کہیں تنظیم اور نہ تحریک نظر آتی ہے۔موجودہ کھلم کھلا اسرائیل اور بیرون ملک سے پاکستان دشمن بیانات کے علاوہ حکیم سعید اورڈاکٹر اسرار احمد کے بیانات کے بعد کیا ہمارے میڈیا ،معزز عدلیہ کو زیب دیتا ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت بناکر پیش کریں۔ انکے نزدیک محب وطنی شائدکسی چڑیا کا نام نہیں۔
یہ کالم بھی ویب پیج پر لگے گا