پھر جناب! اگر تفتیش کا رخ اسی جانب موڑا جائے تو بھی مشرف کی جانب بھلا انگلی کیوں نہیں اٹھے گی۔ مرتضیٰ کے قتل کے پس پردہ جو ہاتھ کارفرما تھے، وہ تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ شہید بی بی کے فاروق بھائی تو ابھی زندہ ہیں۔ وہ ایک دو مواقع پر اشارہ کر بھی چکے ہیں۔ اگر کبھی ان کے ضمیر پر زیادہ بوجھ پڑ گیا تو گواہی بھی دے دیں گے۔ بات بالکل واضح ہو جائے گی مگر ان کے دیئے گئے اشارے بھی تو واضح ہیں۔ کھُرا تو آسانی کے ساتھ نکل آتا ہے۔ قاتلوں کے چہرے نہ سہی، لمبے ہاتھ تو بے نقاب ہوسکتے ہیں اور اگر یہی لمبے ہاتھ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی ملوث ہیں تو بھائی پھر آپ مشرف کی صفائی کیسے پیش کرسکتے ہیں۔ یہی لمبے ہاتھ نواب اکبر بگٹی کی گردن ناپنے کیلئے ان کی غار تک جا پہنچے تھے اور یہی لمبے ہاتھ مرتضیٰ اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے سانحات کے بعد ثبوت اور عینی شہادتوں کو بھی مٹاتے اور ختم کرتے رہے تاکہ نہ رہے باس، نہ بجے بانسری۔ راشد قریشی نے بھولپن میں یا اپنے باس کی صفائی پیش کرنے کے شوق میں ازخود کتنا بڑا انکشاف کردیا ہے۔ انہیں تو شائد اس کا اندازہ نہیں ہوگا مگر اس سے کھُرا قاتلو ں کے پاﺅں تک پہنچانے میں کوئی دِقت نہیں ہوسکتی۔ اگر شہید بی بی کے شوہر نامداراور ان کی پارٹی کے وارث جناب صدر زرداری فی الواقع اصل قاتلوں تک پہنچنا چاہتے ہوں گے تو راشد قریشی کے بیان کی روشنی میں غیر جانبدارانہ تفتیش کرالیں، قاتل خود ہی بے نقاب ہو جائیں گے اور انہیں تو خود بھی قاتلوں کا پتہ ہے، جیسے شہید بی بی کے فاروق بھائی کو اپنے عہدِ صدارت میں ہونے والے مرتضیٰ کے قتل کے حقائق کا علم تھا اس لئے جس طرح مرتضیٰ کے قاتل ”فاروئی بھائی“ سے چھپے ہوئے نہیں ہیں، اسی طرح شہید بی بی کے قاتل ان کے شوہر نامدار کی آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ علم ہونے کے باوجود قتل کے ان دونوں سانحات کو رونما ہونے سے روکا کیوں نہ جاسکا۔
راشد قریشی نے ڈاکٹر بابر اعوان اور رحمان ملک کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی کا راستہ تبدیل کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یو این کمیشن کی رپورٹ میں بھی تو یہی اشارہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں حضرات کا ماضی کیا تھا۔ بھٹو فیملی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی وابستگی کب سے ہے اور کتنی گہری رہی ہے اور جناب آصف علی زرداری کے ساتھ ان کے قرب کا پس منظر کیا ہے۔ کڑیاں ملاتے جایئے، راستہ بنتا جائے گا، کھُرا چلتا، بھاگتا اور پھر سرپٹ دوڑتا جائے گا اور ”میری بُکّل دے وِچ چور“ کی گواہی دیتا جائے گا۔پھر مشرف بادشاہ بھی کیسے بچ سکتے ہیں، فاروق بھائی بھی کہاں نکل سکتے ہیں اور شوہر نامدار کی شاہی سواری بھی انگلی کے اشارے سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس لئے راشد قریشی نے مرتضیٰ اور بے نظیر کے قتل کی کڑیاں آپس میں ملا کر منزل کی جانب سفر بہت آسان کردیا ہے۔ اب بات صرف نیت کے خلوص کی ہے۔ اگر فی الواقع اصل قاتلوں تک پہنچنے کی نیت ہو تو اب زیادہ مشقت اور زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ مشرف تو اپنے دفاع کیلئے بس اسی دلیل پر اکتفاءکر چکے ہیں کہ مجھ پر بھی تو قاتلانہ، خودکش حملے ہوتے رہے ہیں مگر ان پر ہونے والے خودکش حملوں اور بے نظیر بھٹو پر کراچی اورراولپنڈی میں ہونے والے حملوں کا پس منظر قطعی مختلف ہے جس کا ثبوت مشرف کے ترجمان راشد قریشی نے خود اپنے بیان کے ذریعہ پیش کردیا ہے۔ اگر مشرف کی بات درست مانی جائے تو مرتضیٰ، مشرف اور بے نظیر پر ہونے والے حملوں کا محرک ایک ہی بنے گا جبکہ راشد قریشی نے مشرف کو بیج میں سے نکال کر صرف مرتضیٰ اور بے نظیر کے قتل کے سانحات کی کڑیاں آپس میں ملائی ہیں جن میں لامحالہ مشرف بھی آن پھنسیں گے کیونکہ ان دونوں سانحات قتل کا ایک ہی محرک اور ایک ہی پس منظرہوگا تو اس میں مشرف کے فاروق بھائی جیسے حالات سے آگاہی والے کردار کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ناہید خاں اور صفدر عباسی قاتلوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، وہ جب تک اپنا رخ تبدیل نہیں کریں گے، سایوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خود کو گم کر بیٹھیں گے۔ اس لئے وہ تھوڑی دیر رک کر اپنی سمت متعین کرلیں۔ فاطمہ بھٹو کے تجسس کا حصہ بن جائیں اور پھر باہم مل کر آواز بلند کریں۔ انگلی اٹھائیں، ان کی آواز میں بھی تاثیر ہوگی اور ان کا اشارہ بھی واضح ہوگا۔ ورنہ تو سر پھٹول ہی سر پھٹول ہے۔