اخباری رپورٹوں کے مطابق قومی مفاہمتی حکومت کے قیام کیلئے کوششیں آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں حکمران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے اور دونوں میں شراکت حکومت کیلئے معاہدے اور پاور شیئرنگ فارمولے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق دونوں جماعتوں نے سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے جبکہ آئندہ ہفتے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے اہم رہنماﺅں کے مابین ایوان صدر اسلام آباد میں اہم ملاقات ہو گی جس میں تمام معاملات طے کئے جائینگے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) میں اتحاد کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی جبکہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران الزام عائد کیا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں سیاست میں ملوث ہو کر پارٹیوں کو آپس میں ملا رہی ہیں جس کے جواب میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر ایجنسیوں سے متعلق ثبوت فراہم کریں‘ ہم کارروائی کرینگے۔
یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود پارلیمانی پارٹیاں کسی اہم قومی اور عوامی ایشو پر باہمی اتفاق رائے سے قانون سازی کی بھی مجاز ہوتی ہیں اور امور حکومت کی انجام دہی کیلئے بھی ایک دوسرے سے تعاون کر سکتی ہےں‘ اسی طرح کسی جماعت کا عددی اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنانا اور کسی اپوزیشن جماعت کا دوسری پارلیمانی پارٹیوں کے تعاون سے اکثریت میں آنے اور حکومت بنانے کی کوشش کرنا پارلیمانی جمہوری روایات کا حصہ ہے اور اس سلسلہ میں آئین میں کوئی قدغن نہیں ہے‘ تاہم مستحکم پارلیمانی جمہوری روایات اس امر کی متقاضی ہیں کہ منتخب ایوانوں میں کسی جماعت کو چاہے ایک ووٹ سے عددی اکثریت حاصل ہو تو بھی اسکے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے تاکہ جمہوری نظام سبک خرامی سے چلتا رہے‘ البتہ منقسم مینڈیٹ میں پارلیمانی پارٹیاں اپنی اپنی سہولت کے تحت باہم مل کر حکومت بنانے یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہیں۔
اس وقت ہمارے جمہوری نظام میں بھی بالخصوص قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں ماسوائے سندھ میں کسی ایک پارٹی کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہو سکا‘ اس سلسلہ میں قومی اسمبلی کی پوزیشن تو بہت نازک ہے‘ جہاں پیپلز پارٹی کم از کم دو دوسری پارلیمانی پارٹیوں کا تعاون حاصل کئے بغیر اپنی حکومت کو برقرار نہیں رکھ سکتی‘ اس کیلئے یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) کے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے بعد پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو پارلیمنٹ میں آئے روز جھٹکے لگتے رہتے ہیں اور وہ اپنی حکومت کو بچانے کیلئے دوسری پارلیمانی پارٹیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم (متحدہ) کے سرکاری بینچوں پر واپس آنے کے باوجود پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں کوئی آئینی ترمیم منظور کرا سکے‘ یا کسی مالیاتی بل پر اپنے حق میں فیصلہ لے سکے جبکہ آنیوالے قومی بجٹ کے مرحلہ میں اسے ایم کیو ایم متحدہ کی جانب سے پھر آنکھیں دکھانے کا دھڑکا بھی لگا ہوا ہے جس کے باعث بجٹ کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں چنانچہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ (ق) سے سلسلہ جنبانی شروع کرکے اسے حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سانحہ قتل کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے خود اس جماعت کو قاتل لیگ کا خطاب دیا تھا۔
مسلم لیگ (ق) کی قیادت اگرچہ بغض معاویہ کے تحت پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ شیروشکر ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو ڈوگر کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر ختم کرانے اور پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ میں مسلم لیگ (ق) ہی کا عمل دخل رہا ہے اور پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کے دوران بھی مسلم لیگ (ق) اپنی حکومت مخالف پالیسیوں میں پیپلز پارٹی کا دم بھرتی رہی۔ اب یہ دونوں جماعتیں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) اب تک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور عملاً قانون سازی کے مراحل میں حکمران پیپلز پارٹی کا ہی ساتھ نبھاتی رہی ہے اس لئے اگر اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) اپنی اپنی ضرورت کے تحت قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد قائم کرلیتی ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ این آئی سی ایل غبن کیس میں ملوث چودھری مونس الٰہی کو قانون کے شکنجے سے بچانے کیلئے حکمران پیپلز پارٹی کے ساتھ آنا مسلم لیگ (ق) کی بھی مجبوری ہے اور اس تناظر میں مستقبل قریب میں وفاقی اور صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومتوں کے قیام کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ ان دونوں جماعتوں کے ممکنہ حکومتی اتحاد کا پس منظر اور مشترکہ مقصد آئندہ انتخابات میں بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا بھی ہے‘ اس لئے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں اپنی اپنی رائے اور پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ کر شر کی بنیاد پر باہم متحد ہو کر منافقانہ سیاست کی مثال بننے سے بھی نہیں ہچکچا رہیں۔ چنانچہ ان دونوں پارٹیوں میں کارکنوں کی سطح پر ایک دوسرے کےساتھ سنگین اختلافات اور تحفظات کے باوجود قیادتیں باہم شیروشکر ہیں اور یہ نوبت لانے میں اگر حکومتی خفیہ ایجنسیوں کا کوئی عمل دخل ہے جس کی نشاندہی چودھری نثار علی خان نے منتخب اسمبلی کے فورم پر تقریر کرتے ہوئے کی ہے تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہو گی کیونکہ باہم گٹھ جوڑ بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کےخلاف کیا جا رہا ہے جو ملک کی مقبول سیاسی جماعت ہے اور اسکی پنجاب حکومت تمام اہم قومی ایشوز پر قومی جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے باہمی مفاداتی اتحاد پر ان جماعتوں میں کارکنوں کی سطح پر کیا ردعمل ہوتا ہے اور اس ردعمل کے کیا ممکنہ نتائج مرتب ہوتے ہیں‘ یہ ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں کا دردسر ہے‘ تاہم اس سازشی مفاداتی سیاست کا توڑ کرنے کیلئے اب مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنی مستقبل کی سیاست کیلئے صف بندی کرکے متحرک ہونا چاہیے اور اپنی پنجاب حکومت کو محفوظ و مضبوط بنانے کیلئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یونیفکیشن بلاک کی شکل میں مسلم لیگ (ق) کی اکثریتی پارلیمانی پارٹی کے تعاون سے مسلم لیگ (ن) کی عددی اکثریت برقرار رہے گی کیونکہ آئین و قانون کے تحت یونیفکیشن بلاک کے ارکان کسی نااہلیت کی زد میں نہیں آتے اور پارٹی سربراہ کو اسکے کسی رکنیت کی نااہلیت کیلئے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل ہونیوالا اختیار اگلی اسمبلی پر لاگو ہو گا اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی پنجاب حکومت کیخلاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے کی جانیوالی کسی ممکنہ سازش کا ابھی سے توڑ کرلے اور یونیفکیشن بلاک والی مسلم لیگ (ق) کی اکثریتی پارلیمانی پارٹی کو علی الاعلان حکومتی اتحاد میں شامل کرکے پنجاب کابینہ میں موجود کمی انکے ارکان سے پوری کرلے۔
اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف پنجاب اسمبلی میں ازخود اعتماد کا ووٹ دوبارہ حاصل کرکے ایک نئی پارلیمانی روایت بھی قائم کر سکتے ہیں اور سازشی عناصر کے منہ بھی بند کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے بھی انہیں لامحالہ مسلم لیگ (ق) کے اکثریتی یونیفکیشن بلاک کے تعاون کی ضرورت ہو گی جس میں انہیں اب کسی پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر میاں شہباز شریف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ممکنہ اتحاد پر میاں بیوی راضی کیا کرےگا قاضی کی مثال دے سکتے ہیں تو پنجاب حکومت کو قائم و برقرار رکھنے کی خاطر مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) یونیفکیشن بلاک کا بھی انہی بنیادوں پر ملاپ ہو سکتا ہے جبکہ یہ ملاپ فطری بھی قرار پائیگا کیونکہ یہ دونوں پارلیمانی پارٹیاں بنیادی طور پر مسلم لیگ ہی ہیں جن کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا وقت کی ضرورت بھی ہے۔
امریکہ کی نظر میں آئی ایس آئی دہشت گرد!
برطانوی جریدے گارڈین نے امریکی اداروں کی خفیہ دستاویزات کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی کو 36 دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ اس گروپ میں القاعدہ‘ طالبان‘ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس شامل ہیں۔ آئی ایس آئی پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی مدد کر رہی ہے۔ مذکورہ دستاویزات میں آئی ایس آئی کو امریکہ کیلئے القاعدہ اور طالبان کی طرح خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی آزاد اور خودمختار ادارہ نہیں‘ جو اپنی جیسے چاہے پالیسی مرتب کرے اور اس پر عمل کربھی گزرے۔ یہ فوج کا ماتحت ادارہ ہے‘ اس پر فوجی ڈسپلن لاگو ہوتا ہے۔ اس سے منسلک اعلیٰ عہدیدار یونیفارم پرسنل ہیں اور اس فوج کا حصہ ہیں جس کے ایک لاکھ 47 ہزار سپوت اپنے ہی قبائلی علاقوں میں اپنے ہی لوگوں سے برسر پیکار ہےں۔ یہ آخر کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ اس میں آئی ایس آئی کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں سمیت تین ہزار سے زائد فوجی اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پھر بھی بے وفائی کا الزام اور اسکی پاداش میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اہتمام کیا۔ آئی ایس آئی کو ملکی مفاد مقدم ہے‘ یہ موساد اور ”را“ کی پاکستان دشمن کارروائیوں‘ منصوبوں اور سازشوں کو نہ صرف کاﺅنٹر کرتی ہے‘ بلکہ منہ توڑ جواب بھی دیتی ہے۔ آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی یہ ان شیطان صفت ایجنسیوں کی چال ہو سکتی ہے۔ امریکہ پاک فوج کی قربانیوں کا شمار کرے‘ نہ کہ لگائی بجھائی میں آکر دوستوں کو دشمنوں کی صف میں شامل کرلے۔ اگر اسے یقین ہے کہ آئی ایس آئی واقعی امریکی مفادات کےخلاف کام کر رہی ہے تو امریکہ اپنے مفادات آئی ایس آئی اور پاک فوج سے دور لے جائے۔ جہاں اسکے مفادات کو گزند نہ پہنچ سکے۔ یہی اسکے اور پاکستان کے مفاد میں بہتر ہے۔ اس سے پاکستان اور پاکستانیوں کی ڈرون حملوں سے جان چھوٹ جائیگی اور پاک فوج بھی اپنی پوری توجہ مشرقی بارڈر کی طرف مرکوز کر سکے گی۔ جہاں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے ہمہ وقت خطرہ موجود ہے۔
بھارت سے بجلی اور تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں
بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت پاکستان کو ریفائنڈ پٹرول اورڈیزل برآمد کریگا جس کا مقصد نہ صرف پاکستان کی انرجی کی ضروریات پوری کرنا ہے بلکہ اپنی ریفائنریوں کیلئے نئی مارکیٹ کھولنا ہے۔ قبل ازیں بھارت کی طرف سے پاکستان کو بجلی فراہم کرنے کی پیشکش بھی ہوچکی ہے۔ اب بھارت کے پاس شاید کشمیر سے پاکستان آنےوالے دریاﺅں پر بے شمار ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر سے اس قدر زیادہ بجلی پیدا ہورہی ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے اسے پاکستان کو برآمد کرناچاہتا ہے۔کشمیر ہمارا، وہاں سے آنےوالے دریا ہمارے لیکن بھارت کے قبضے میں ہونے کے باعث بھارت اب وہاں سے بجلی پیدا کرکے ہمیں فروخت کریگا۔ ہمارے جوتے ہمارا سر۔ بھارت سے بجلی حاصل نہ کی جائے بلکہ وہ خطہ، علاقہ اور وادی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو دریاﺅں کا منبع اور پاکستان کا حصہ ہے۔کچھ لوگوں کویہ خوش فہمی ہے کہ بھارت سے سستی بجلی اور تیل کی خریداری سلو ہوتی ہوئی معیشت کی گاڑی تیزی سے رواں دواں ہوجائے گی لیکن جب اسکی ڈرائیونگ سیٹ پر ہندو بنیا بیٹھا ہوگا تو کسی بھی وقت اس گاڑی کو پٹڑی سے اتار سکتا ہے۔ ہمیں بطور قوم ایسی بجلی کی ضرورت نہیں جو معیشت کی مزید زبو حالی کا باعث بنے اور ایسے تیل کی بھی ضرورت نہیں جس سے جلنے والے چراغ بھارت جب چاہے بجھادے۔ مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا۔
الیکشن کمیشن کی تنظیم نو جلد کی جائے
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی تشکیل فوری مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے‘ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ریاستی ادارہ نامکمل اور غیرفعال ہو تو اسکے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں‘ حکومت نے سسٹم چلانا ہے تو آئین اور قانون پر عمل کرنا ہی ہو گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2007ءمیں پاکستان آکر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پر زور دیا تھا اور میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے مابین میثاق جمہوریت میں بھی آزادانہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پر اتفاق ہوا تھا لیکن عرصہ تین سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوا۔ گزشتہ الیکشن میں دو کروڑ 73 لاکھ جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے‘ اتنی بڑی تعداد میں جعلی ووٹوں کے بعد موجودہ ممبران اسمبلی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے لیکن ان تمام تر قباحتوں کے باوجود حکومت نے ہنوز الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جانب کوئی توجہ نہیں دی‘ اگر ریاستی ادارے اسی طرح نامکمل ہونگے تو انکے فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی لیکن حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ 4 جنوری 2011ءکو مسلم لیگ (ن) نے 10 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا‘ اس میں بھی (ن) لیگ نے الیکشن کمیشن کی تنظیم نو پر زور دیا تھا تاکہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بن سکے لیکن حکومت نے ابھی تک اس اہم قومی مسئلے پر کوئی غور و خوض نہیں کیا۔ حکومت اگر ملک میں سسٹم کو چلانا چاہتی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ نامکمل اداروں کی تشکیل نو کی جائے اور آئین قانون کا ہر ادارے کو پابند کیا جائے تاکہ سسٹم کو چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود پارلیمانی پارٹیاں کسی اہم قومی اور عوامی ایشو پر باہمی اتفاق رائے سے قانون سازی کی بھی مجاز ہوتی ہیں اور امور حکومت کی انجام دہی کیلئے بھی ایک دوسرے سے تعاون کر سکتی ہےں‘ اسی طرح کسی جماعت کا عددی اکثریت کی بنیاد پر حکومت بنانا اور کسی اپوزیشن جماعت کا دوسری پارلیمانی پارٹیوں کے تعاون سے اکثریت میں آنے اور حکومت بنانے کی کوشش کرنا پارلیمانی جمہوری روایات کا حصہ ہے اور اس سلسلہ میں آئین میں کوئی قدغن نہیں ہے‘ تاہم مستحکم پارلیمانی جمہوری روایات اس امر کی متقاضی ہیں کہ منتخب ایوانوں میں کسی جماعت کو چاہے ایک ووٹ سے عددی اکثریت حاصل ہو تو بھی اسکے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے تاکہ جمہوری نظام سبک خرامی سے چلتا رہے‘ البتہ منقسم مینڈیٹ میں پارلیمانی پارٹیاں اپنی اپنی سہولت کے تحت باہم مل کر حکومت بنانے یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہیں۔
اس وقت ہمارے جمہوری نظام میں بھی بالخصوص قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں ماسوائے سندھ میں کسی ایک پارٹی کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہو سکا‘ اس سلسلہ میں قومی اسمبلی کی پوزیشن تو بہت نازک ہے‘ جہاں پیپلز پارٹی کم از کم دو دوسری پارلیمانی پارٹیوں کا تعاون حاصل کئے بغیر اپنی حکومت کو برقرار نہیں رکھ سکتی‘ اس کیلئے یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) کے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے بعد پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو پارلیمنٹ میں آئے روز جھٹکے لگتے رہتے ہیں اور وہ اپنی حکومت کو بچانے کیلئے دوسری پارلیمانی پارٹیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم (متحدہ) کے سرکاری بینچوں پر واپس آنے کے باوجود پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں کوئی آئینی ترمیم منظور کرا سکے‘ یا کسی مالیاتی بل پر اپنے حق میں فیصلہ لے سکے جبکہ آنیوالے قومی بجٹ کے مرحلہ میں اسے ایم کیو ایم متحدہ کی جانب سے پھر آنکھیں دکھانے کا دھڑکا بھی لگا ہوا ہے جس کے باعث بجٹ کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں چنانچہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ (ق) سے سلسلہ جنبانی شروع کرکے اسے حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سانحہ قتل کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے خود اس جماعت کو قاتل لیگ کا خطاب دیا تھا۔
مسلم لیگ (ق) کی قیادت اگرچہ بغض معاویہ کے تحت پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ شیروشکر ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو ڈوگر کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر ختم کرانے اور پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ میں مسلم لیگ (ق) ہی کا عمل دخل رہا ہے اور پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کے دوران بھی مسلم لیگ (ق) اپنی حکومت مخالف پالیسیوں میں پیپلز پارٹی کا دم بھرتی رہی۔ اب یہ دونوں جماعتیں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) اب تک فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور عملاً قانون سازی کے مراحل میں حکمران پیپلز پارٹی کا ہی ساتھ نبھاتی رہی ہے اس لئے اگر اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) اپنی اپنی ضرورت کے تحت قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد قائم کرلیتی ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ این آئی سی ایل غبن کیس میں ملوث چودھری مونس الٰہی کو قانون کے شکنجے سے بچانے کیلئے حکمران پیپلز پارٹی کے ساتھ آنا مسلم لیگ (ق) کی بھی مجبوری ہے اور اس تناظر میں مستقبل قریب میں وفاقی اور صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومتوں کے قیام کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ ان دونوں جماعتوں کے ممکنہ حکومتی اتحاد کا پس منظر اور مشترکہ مقصد آئندہ انتخابات میں بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا بھی ہے‘ اس لئے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے بارے میں اپنی اپنی رائے اور پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ کر شر کی بنیاد پر باہم متحد ہو کر منافقانہ سیاست کی مثال بننے سے بھی نہیں ہچکچا رہیں۔ چنانچہ ان دونوں پارٹیوں میں کارکنوں کی سطح پر ایک دوسرے کےساتھ سنگین اختلافات اور تحفظات کے باوجود قیادتیں باہم شیروشکر ہیں اور یہ نوبت لانے میں اگر حکومتی خفیہ ایجنسیوں کا کوئی عمل دخل ہے جس کی نشاندہی چودھری نثار علی خان نے منتخب اسمبلی کے فورم پر تقریر کرتے ہوئے کی ہے تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہو گی کیونکہ باہم گٹھ جوڑ بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کےخلاف کیا جا رہا ہے جو ملک کی مقبول سیاسی جماعت ہے اور اسکی پنجاب حکومت تمام اہم قومی ایشوز پر قومی جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے باہمی مفاداتی اتحاد پر ان جماعتوں میں کارکنوں کی سطح پر کیا ردعمل ہوتا ہے اور اس ردعمل کے کیا ممکنہ نتائج مرتب ہوتے ہیں‘ یہ ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں کا دردسر ہے‘ تاہم اس سازشی مفاداتی سیاست کا توڑ کرنے کیلئے اب مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنی مستقبل کی سیاست کیلئے صف بندی کرکے متحرک ہونا چاہیے اور اپنی پنجاب حکومت کو محفوظ و مضبوط بنانے کیلئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور یونیفکیشن بلاک کی شکل میں مسلم لیگ (ق) کی اکثریتی پارلیمانی پارٹی کے تعاون سے مسلم لیگ (ن) کی عددی اکثریت برقرار رہے گی کیونکہ آئین و قانون کے تحت یونیفکیشن بلاک کے ارکان کسی نااہلیت کی زد میں نہیں آتے اور پارٹی سربراہ کو اسکے کسی رکنیت کی نااہلیت کیلئے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل ہونیوالا اختیار اگلی اسمبلی پر لاگو ہو گا اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی پنجاب حکومت کیخلاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے کی جانیوالی کسی ممکنہ سازش کا ابھی سے توڑ کرلے اور یونیفکیشن بلاک والی مسلم لیگ (ق) کی اکثریتی پارلیمانی پارٹی کو علی الاعلان حکومتی اتحاد میں شامل کرکے پنجاب کابینہ میں موجود کمی انکے ارکان سے پوری کرلے۔
اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف پنجاب اسمبلی میں ازخود اعتماد کا ووٹ دوبارہ حاصل کرکے ایک نئی پارلیمانی روایت بھی قائم کر سکتے ہیں اور سازشی عناصر کے منہ بھی بند کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے بھی انہیں لامحالہ مسلم لیگ (ق) کے اکثریتی یونیفکیشن بلاک کے تعاون کی ضرورت ہو گی جس میں انہیں اب کسی پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر میاں شہباز شریف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ممکنہ اتحاد پر میاں بیوی راضی کیا کرےگا قاضی کی مثال دے سکتے ہیں تو پنجاب حکومت کو قائم و برقرار رکھنے کی خاطر مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) یونیفکیشن بلاک کا بھی انہی بنیادوں پر ملاپ ہو سکتا ہے جبکہ یہ ملاپ فطری بھی قرار پائیگا کیونکہ یہ دونوں پارلیمانی پارٹیاں بنیادی طور پر مسلم لیگ ہی ہیں جن کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا وقت کی ضرورت بھی ہے۔
امریکہ کی نظر میں آئی ایس آئی دہشت گرد!
برطانوی جریدے گارڈین نے امریکی اداروں کی خفیہ دستاویزات کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی کو 36 دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ اس گروپ میں القاعدہ‘ طالبان‘ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس شامل ہیں۔ آئی ایس آئی پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی مدد کر رہی ہے۔ مذکورہ دستاویزات میں آئی ایس آئی کو امریکہ کیلئے القاعدہ اور طالبان کی طرح خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
آئی ایس آئی آزاد اور خودمختار ادارہ نہیں‘ جو اپنی جیسے چاہے پالیسی مرتب کرے اور اس پر عمل کربھی گزرے۔ یہ فوج کا ماتحت ادارہ ہے‘ اس پر فوجی ڈسپلن لاگو ہوتا ہے۔ اس سے منسلک اعلیٰ عہدیدار یونیفارم پرسنل ہیں اور اس فوج کا حصہ ہیں جس کے ایک لاکھ 47 ہزار سپوت اپنے ہی قبائلی علاقوں میں اپنے ہی لوگوں سے برسر پیکار ہےں۔ یہ آخر کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ اس میں آئی ایس آئی کے سینکڑوں افسروں اور جوانوں سمیت تین ہزار سے زائد فوجی اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پھر بھی بے وفائی کا الزام اور اسکی پاداش میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اہتمام کیا۔ آئی ایس آئی کو ملکی مفاد مقدم ہے‘ یہ موساد اور ”را“ کی پاکستان دشمن کارروائیوں‘ منصوبوں اور سازشوں کو نہ صرف کاﺅنٹر کرتی ہے‘ بلکہ منہ توڑ جواب بھی دیتی ہے۔ آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی یہ ان شیطان صفت ایجنسیوں کی چال ہو سکتی ہے۔ امریکہ پاک فوج کی قربانیوں کا شمار کرے‘ نہ کہ لگائی بجھائی میں آکر دوستوں کو دشمنوں کی صف میں شامل کرلے۔ اگر اسے یقین ہے کہ آئی ایس آئی واقعی امریکی مفادات کےخلاف کام کر رہی ہے تو امریکہ اپنے مفادات آئی ایس آئی اور پاک فوج سے دور لے جائے۔ جہاں اسکے مفادات کو گزند نہ پہنچ سکے۔ یہی اسکے اور پاکستان کے مفاد میں بہتر ہے۔ اس سے پاکستان اور پاکستانیوں کی ڈرون حملوں سے جان چھوٹ جائیگی اور پاک فوج بھی اپنی پوری توجہ مشرقی بارڈر کی طرف مرکوز کر سکے گی۔ جہاں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے ہمہ وقت خطرہ موجود ہے۔
بھارت سے بجلی اور تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں
بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت پاکستان کو ریفائنڈ پٹرول اورڈیزل برآمد کریگا جس کا مقصد نہ صرف پاکستان کی انرجی کی ضروریات پوری کرنا ہے بلکہ اپنی ریفائنریوں کیلئے نئی مارکیٹ کھولنا ہے۔ قبل ازیں بھارت کی طرف سے پاکستان کو بجلی فراہم کرنے کی پیشکش بھی ہوچکی ہے۔ اب بھارت کے پاس شاید کشمیر سے پاکستان آنےوالے دریاﺅں پر بے شمار ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر سے اس قدر زیادہ بجلی پیدا ہورہی ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے اسے پاکستان کو برآمد کرناچاہتا ہے۔کشمیر ہمارا، وہاں سے آنےوالے دریا ہمارے لیکن بھارت کے قبضے میں ہونے کے باعث بھارت اب وہاں سے بجلی پیدا کرکے ہمیں فروخت کریگا۔ ہمارے جوتے ہمارا سر۔ بھارت سے بجلی حاصل نہ کی جائے بلکہ وہ خطہ، علاقہ اور وادی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو دریاﺅں کا منبع اور پاکستان کا حصہ ہے۔کچھ لوگوں کویہ خوش فہمی ہے کہ بھارت سے سستی بجلی اور تیل کی خریداری سلو ہوتی ہوئی معیشت کی گاڑی تیزی سے رواں دواں ہوجائے گی لیکن جب اسکی ڈرائیونگ سیٹ پر ہندو بنیا بیٹھا ہوگا تو کسی بھی وقت اس گاڑی کو پٹڑی سے اتار سکتا ہے۔ ہمیں بطور قوم ایسی بجلی کی ضرورت نہیں جو معیشت کی مزید زبو حالی کا باعث بنے اور ایسے تیل کی بھی ضرورت نہیں جس سے جلنے والے چراغ بھارت جب چاہے بجھادے۔ مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا۔
الیکشن کمیشن کی تنظیم نو جلد کی جائے
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی تشکیل فوری مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے‘ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ریاستی ادارہ نامکمل اور غیرفعال ہو تو اسکے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں‘ حکومت نے سسٹم چلانا ہے تو آئین اور قانون پر عمل کرنا ہی ہو گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2007ءمیں پاکستان آکر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پر زور دیا تھا اور میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے مابین میثاق جمہوریت میں بھی آزادانہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پر اتفاق ہوا تھا لیکن عرصہ تین سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوا۔ گزشتہ الیکشن میں دو کروڑ 73 لاکھ جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے‘ اتنی بڑی تعداد میں جعلی ووٹوں کے بعد موجودہ ممبران اسمبلی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے لیکن ان تمام تر قباحتوں کے باوجود حکومت نے ہنوز الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جانب کوئی توجہ نہیں دی‘ اگر ریاستی ادارے اسی طرح نامکمل ہونگے تو انکے فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی لیکن حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ 4 جنوری 2011ءکو مسلم لیگ (ن) نے 10 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا‘ اس میں بھی (ن) لیگ نے الیکشن کمیشن کی تنظیم نو پر زور دیا تھا تاکہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بن سکے لیکن حکومت نے ابھی تک اس اہم قومی مسئلے پر کوئی غور و خوض نہیں کیا۔ حکومت اگر ملک میں سسٹم کو چلانا چاہتی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ نامکمل اداروں کی تشکیل نو کی جائے اور آئین قانون کا ہر ادارے کو پابند کیا جائے تاکہ سسٹم کو چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔